امریکہ کے ایوانِ نمائندگان نے 'کیپیٹل ہل' کی عمارت میں نصب امریکہ میں غلامی کی حمایت کرنے والی تاریخی شخصیات کے مجسمے ہٹانے کا بِل منظور کر لیا ہے۔
ڈیموکریٹس کے اکثریتی ایوان میں اس بل پر بدھ کو ووٹنگ ہوئی۔ بِل میں غلامی کی حمایت کرنے والی شخصیات اور امریکہ میں 19 ویں صدی میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران کنفیڈریٹ ریاستوں کے رہنماؤں کے مجسمے کانگریس کی عمارت سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
ایوانِ نمائندگان میں ووٹنگ کے دوران بِل کی حمایت میں 301 ووٹ پڑے جب کہ 113 اراکین نے بل کی مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ بِل کی حمایت کرنے والوں میں 72 ری پبلکن ارکان بھی شامل تھے جن میں سے کئی قدامت پسند نظریات کے حامل ہیں۔
یہ بِل اب امریکی سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔ لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ آیا سینیٹ میں ری پبلکن کے اکثریتی رہنما مچ مکونل اس بل پر ووٹنگ کرائیں گے یا نہیں۔
اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو 'کیپیٹل ہل' کی عمارت کے مرکزی ہال میں نصب کم از کم 10 مجسمے ہٹادیے جائیں گے۔ ایوان کی عمارت سے جو مجسمے ہٹائے جائیں گے ان میں امریکی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس روجر ٹینی کا مجسمہ بھی شامل ہے۔
روجر ٹینی نے 1857 میں اپنے ایک فیصلے میں لکھا تھا کہ سیاہ فام لوگ امریکہ کے شہری نہیں بن سکتے اور امریکی کانگریس کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کرے۔
سابق چیف جسٹس کے اس فیصلے کو امریکہ کی عدالتی تاریخ کا بدترین فیصلہ بھی کہا جاتا ہے۔
البتہ اس فیصلے کے بعد 1865 میں امریکی آئین میں 13 ویں ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت امریکہ میں غلامی کو ختم کردیا گیا تھا۔ پھر 1868 میں 14 ویں ترمیم آئی تھی جس میں اس عدالتی فیصلے کے برخلاف امریکہ میں پیدا ہونے والے تمام لوگوں کو ان کی نسل یا رنگت سے قطعِ نظر امریکی شہریت دے دی گئی تھی۔
ایوانِ نمائندگان کے کچھ اراکین نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ روجر ٹینی کے مجسمے کی جگہ تھرگُڈ مارشل کا مجسمہ نصب کیا جائے جو سپریم کورٹ کے پہلے سیاہ فام جج تھے۔
ایک اور مجسمہ جو اس بل کی منظوری کے بعد ہٹایا جائے گا وہ سابق نائب صدر جون بریکن رِج کا ہے جو امریکہ کی تاریخ کے سب سے کم عمر نائب صدر تھے۔ امریکی سینیٹ نے بریکن رج کو ان کے عہدے سے اس وقت ہٹا دیا تھا جب وہ 1861 میں غلامی کی حمایت کرنے والی کنفیڈریٹ آرمی کے ساتھ مل گئے تھے۔
خیال رہے کہ امریکہ میں غلامی کی تاریخ رکھنے والی شخصیات کے مجمسوں کو ہٹانے کا مطالبہ جارج فلائیڈ کی موت کے بعد ہونے والے مظاہروں سے زور پکڑ رہا ہے۔
سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ 25 مئی کو ایک سفید فام پولیس اہلکار کی تحویل میں دم گھٹنے سے اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب پولیس اہلکار نے ان کی گردن کو تقریباً آٹھ منٹ تک اپنے گھٹنے سے دبائے رکھا تھا۔
سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے بعد سے امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف 'بلیک لائیوز میٹر' کے نام سے چلنے والی تحریک زور پکڑ رہی ہے جس کے مطالبات میں غلامی کی تاریخ سے جڑی شخصیات کے مجسمے ہٹانا بھی شامل ہے۔
نسل پرستی کے خلاف مئی سے جاری مظاہروں کے دوران مختلف ریاستوں میں نصب غلامی کی تاریخ سے جڑی شخصیات کے مجسموں کو نقصان بھی پہنچایا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بدھ کو بِل پر ووٹنگ سے قبل ایوانِ نمائندگان میں کچھ اراکین نے مجسمے ہٹانے کے حق میں دلائل بھی دیے۔ ایوان کے ڈیموکریٹ اکثریتی رہنما اسٹینی ہویر نے کہا کہ آزادی کی علامت کانگریس کی عمارت میں بغاوت، غلامی، علیحدگی اور سفید فام نسل پرستی کے محافظوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
ڈیموکریٹس کی ایک اور رکن باربرا لی نے کہا کہ یہ مجسمے تعصب اور نسل پرستی کی علامت ہیں۔ ان لوگوں نے دنیا کی سب سے بااثر عمارت میں سفید فاموں کی نسل پرستانہ بالادستی کو قائم رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
یہ بل ایوانِ نمائندگان سے منظوری کے بعد سینیٹ میں منظوری کا منتظر ہے جس کے بعد اسے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے باوجود اس بل کے نفاذ کے لیے اس پر صدر ٹرمپ کے دستخط لازمی ہیں۔
لیکن صدر ٹرمپ امریکہ میں خانہ جنگی کی تاریخ سے جڑی شخصیات کے مجسموں یا یادگاروں کو ختم کرنے کے سخت مخالف ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ عمل ملک کی تاریخ مٹانے کے مترادف ہو گا۔