امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس تحویل میں موت کے بعد جن احتجاجی مظاہروں نے جنم لیا، ان میں متعدد کنفڈریٹ یادگاری مجسموں کو بھی نقصان پہنچایا گیا یا مظاہرین نے انھیں ہٹا دیا۔ اب ایسے مطالبات میں تیزی پیدا ہورہی ہے کہ ان مجسموں کو ان کے موجودہ مقامات سے منتقل کردیا جائے۔
ایسے ہی ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران رچمنڈ ورجنیا میں مظاہرین نے پر زور مطالبہ کیا کہ بعض مجسمےجو وہاں نصب ہیں انھیں فوری طور پر ہٹایا جائے۔ یاد رہے کہ یہ مجسمے ان شخصیات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے نصب کئے گئے تھے جنھوں نے امریکی کنفڈریسی اور غلامی کے تحفظ کے لئے کام کیا تھا۔
واشنگٹن ڈی سی کی مشہور ہاورڈ یونیورسٹی سے مسنلک پروفیسر لوپیز میتھیو کہتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ غلامی کے خاتمے کو یوں تو تقریباً دو سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن ہمیں اب بھی نسل پرستی اور پولیس کے مظالم کا سامنا ہے اور ہم اب بھی عدم مساوات کی صورتحال کا مقابلہ کررہے ہیں اور یہ کنفڈریٹ یادگاریں ماضی کی علامتیں ہیں۔
یاد رہے کہ اس نوعیت کے یادگاری مجسمے اٹھارہ سو اسی سے اٹھارہ سو نوے کی مدت میں امریکہ کے جنوب میں نصب کئے گئے۔ پنسلیونیا میں اکیڈمی آف فائن آرٹس کی پروفیسر سارا بیتھم نے اس جانب توجہ دلائی کہ ملک کے جنوب میں تقریباً ہر کاونٹی اور کورٹ ہاؤس کے احاطے میں کنفڈریٹ لیڈروں کو خراج عقیدت کے طور پر ان کے مجسمے نصب ہیں۔ ان کے مطابق، اس بات پر یقین نہ کرنا مشکل ہے کہ ریاست کی سرپرستی میں یہ یادگاریں بہرحال سفید فام برتری کا نشان ہیں۔
حال ہی میں واشنگٹن ڈی سی میں ایک مظاہرے کے دوران ہجوم نے تالیوں کی گونج میں کنفڈریٹ جنرل ایلبرٹ پائیک کے مجسمے کو گرادیا۔ اسی طرح رالے نارتھ کیرولینا میں ایک ہجوم نے اس وقت نہایت خوشی کا اظہار کیا جب مقامی حکام نے ایسے ہی ایک مجسمے کو اس کی بنیاد سے جدا کردیا۔
اسی طرح جارجیا میں بھی مظاہرین نے اس وقت اپنی مسرت کا اظہار کیا جب ایک جج نے پتھر کی بنی ہوئی ایک تختی کو ہٹانے کا حکم دیا جس کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ سفید فام برتری کا احساس دلاتی ہے۔
تاہم، صدر ٹرمپ نے اس رویے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس اختتام ہفتہ اوکلاہوما کی ایک ریلی میں کہا، کہ، بقول ان کے، بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بلوائی ہماری تاریخ کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنارہے ہیں اور ہماری خوبصورت یادگاروں کی بے حرمتی کررہے ہیں۔
گزشتہ جمعرات کو ریپبلکن سینیٹر رائی بلنٹ نے سینیٹ میں ایک ایسے بل کی منظوری میں رکاوٹ ڈال دی جس میں کانگریس کی عمارت سے کنفڈریٹ مجسموں کو ہٹانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ ڈیموکریٹک سینیٹر کوری بوکر کا کہنا ہے کہ کانگریس کی راہداریوں میں ایسے مجسموں کی موجودگی افریقی امریکیوں کی دل آزاری کا سبب ہے اور ہماری قوم کےنصب العین کی نفی ہے۔
وائس آف امریکہ کے لئے نامہ نگار مریامہ دیالونے اپنی رپورٹ میں یاد دلایا ہے کہ امریکی کانگریس کی عمارت میں اس طرح کے کم سے کم بارہ مجسمے ان لوگوں کی یاد میں نصب ہیں، جنھوں نے اٹھارہ سو ساٹھ کےعشرے میں امریکہ کی خانہ جنگی کے دوران کنفڈریٹ اسٹیٹس آف امریکہ کے لئے اپنی وفاداریوں کا اعلان کررکھا تھا، جبکہ خانہ جنگی کا محور امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کرنا تھا۔
مبصرین کی نگاہ میں جارج فلائیڈ کی موت نے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں نسل پرستی اور اس کی علامتوں کے خاتمے اور تمام انسانوں کی برابری کے لئے کی جانے والی جدوجہد کو یقیناً ایک نئی جہت دی ہے۔