جارج فلائیڈ کی ہلاکت سے امریکہ بھر میں پھیلنے والی تحریک کے مطالبات میں نیم وفاقی ریاستوں کےاتحاد کی نامور شخصیات کے مجسموں کو ہٹانے سے اب دنیا بھر میں غلاموں کے سوداگروں، سامراج پَسندوں، فاتحین، مہم جوؤں کے مجسمے ہٹانا شامل لگتا ہے۔ ان شخصیات میں کرسٹوفر کولمبس، سیسل روہڈز اور بیلجیم کے بادشاہ لیو پولڈ دوئم جیسے نام شامل ہیں۔
احتجاجوں اور بعض اوقات لوٹ مار جیسے واقعات بوسٹن، نیو یارک، پیرس، برسلز اور اوکسفورڈ جیسے شہروں میں پھیل چکے ہیں۔
اب مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ صدیوں پر محیط نسلی نا انصافی کے معاملات پر بھرپور نظر ثانی کی جانی چاہئے۔ کیا یہ تاریخ کو مٹانے کی ایک مہم ہے یا اسے نئی شکل دینے کی ایک کاوش ہے؟ اس سوال پر دانشوروں کی رائے منقسم ہے۔
جمعے کے روز نیوزی لینڈ کے چوتھے بڑے شہر، ہیملٹن سے برطانوی بحریہ کے ایک افسر کیپٹن جان ہیملٹن کا کانسی کا مجسمہ ہٹا دیا گیا۔ اس کا مطالبہ مااوری قبیلے کے لوگوں نے کیا تھا۔ ایک مااوری سردار کا کہنا ہے کہ مجسمہ نہ ہٹایا گیا تو وہ خود اسے ہٹا دیں گے۔ کیپٹن ہیملٹن پر الزام ہے کہ اس نے سن 1860ء میں صدیوں سے اس علاقے میں رہنے والے مااوری قبیلےکے افراد کو ہلاک کیا تھا۔ شہر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسے صاف نظر آ رہا تھا کہ لوگ مجسمے کو توڑ دیں گے۔ تاہم، انتظامیہ نے کہا ہے کہ شہر کا نام تبدیل نہیں ہوگا۔
اوکسفورڈ یونیورسٹی میں مظاہرین نے طویل عرصے سے جاری اپنے مطالبات میں شدت لانا شروع کر دی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سیسل روہڈز کا مجسمہ ہٹایا جائے۔ روہڈز وکٹورین عہد کا ایک شہنشاہیت پسند فرد تھا جسے جنوبی افریقہ کی کیپ کالونی میں وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔ اس نے بدترین حالات میں کان کنوں پر جبر کرکے سونے اور ہیروں سے بے تحاشا دولت اکٹھا کی تھی۔
اوکسفورڈ یونیورسٹی کی وائس چانسلر لوئیس رچرڈسن نے بی بی سی سے ایک انٹرویو میں مجسمہ ہٹانے سے اتفاق نہیں کیا۔
انھوں نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے ماضی کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے، اور ان کے نزدیک اپنی تاریخ چھپانا روشن خیالی اور آگہی تک پہنچنے کا راستہ نہیں ہے۔
نیو میکسیکو کے شہر سینٹافے میں سرگرم کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ سولہویں صدی کے ہسپانوی فاتح، ڈون یوآن ڈی اوناٹے کا مجسمہ ہٹایا جائے۔ اِنہیں جنوبی امریکہ کا بانی خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم، انہیں آبائی امریکی باسیوں پر ظلم و ستم کرنے کی وجہ سے نفرت سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دو درجن افراد کے پاؤں کاٹنے کا حکم دیا تھا۔ 1990ء میں اس کے مجسمے کا دایاں پاؤں کاٹ دیا گیا تھا۔
برطانیہ کے شہر برسٹل میں گذشتہ اختتام ہفتہ مظاہرین نے سترہویں صدی میں غلاموں کی تجارت کرنے والے ایڈورڈ کولسٹن کا مجسمہ سمندر میں پھینک دیا تھا۔ شہر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مجسمے کو عجائب گھر میں رکھا جائے گا۔
بیلجئیم کےنصف درجن شہروں میں بادشاہ لیوپولڈ کے مجسموں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ انہیں کانگو میں سخت بے رحمانہ حکمرانی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی وجہ سے دس ملین کے قریب افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
پچیس مئی کو منی ایپلس میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی موت کے بعد یہ تحریک زور پکڑ گئی کہ کنفیڈریسی اور غلامی کے دور کی تمام علامتوں کو مٹا دیا جائے۔
امریکی بحریہ، میرینز، اور نیسکار نے کنفیڈریٹ پرچموں کو لہرانا بند کر دیا ہے۔ ادھر امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں اس وقت کے باغی ہیرو کے مجسموں کو یا تو مظاہرین نے توڑ پھوڑ دیا ہے یا مقامی انتظامیہ نے انہیں ہٹا دیا ہے۔
اِدھر ریاست ورجینیا کا شہر رچمنڈ، جو نیم وفاقی ریاستوں کے اتحاد کے دارالحکومت کے درجے کا مالک رہا ہے، کنفیڈریٹ صدر جیفرسن ڈیوس کا تقریباً ایک صدی پرانا مجسمہ توڑ دیا گیا۔ شہر کی انتظامیہ خود بھی اسے ہٹانا چاہتی تھی، لیکن مجمعے نے یہ کام خود کر دیا۔ تاہم، کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
کنفیڈریٹ لیڈروں میں سب سےزیادہ قابل احترام لیڈر جینرل رابرٹ اے لی تھے۔ گزشتہ ہفتے ورجینا کے گورنر نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ان اکسٹھ فٹ اونچا مجسمہ ہٹا دیا جائے۔ تاہم، ایک مقامی عدالت نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا ہے۔
'سنز آف کنفیڈریٹ ویٹیرنز' کے ورجینیا ڈویژن کے ترجمان، بی فرینک ارنسٹ نے مجسموں کو ہٹانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب آرٹ کے شاہکار نمونے ہیں؛ جنھیں کھونے کا مطلب ایسا ہی ہے جیسے اپنے کسی اہل خانہ سے جدا ہونا۔
پورٹس ماؤتھ کے ایک کارکن اور مظاہروں کے منتظم روکی ہائینز نے کہا ہے کہ ان مجسموں سے جڑی تاریخ کوئی ایسی تاریخ نہیں ہے جس پر بطور قوم ہم فخر کر سکیں۔ ہمارے لئے تاریخ وہ تاریخ ہے جو غلامی اور نفرت سے جڑی ہے اور اس کی وجہ سے لوگ طویل عرصے سے پریشان ہیں۔
تاہم، کنفیڈریٹ کی یادگاروں کےحامیوں کا کہنا ہے کہ یہ تمام یادگاریں ہماری تاریخ کی یاددہانیاں ہیں۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ ان کی یادگار ہے جنھوں نے جنگ چھیڑی۔ تاریخ دان اس پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کینٹکی کے پروفیسر، مارک سمرز نے کہا ہے کہ تاریخ کو واضح کرنا چاہیے تاکہ یہ مسخ نہ ہو؛ یا پھر کوئی ایسا موقع میسر آئے جس کے ذریعے ہم اسے پورے طور پر یاد رکھیں۔ میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ ماضی کا احترام صرف چند یادگاروں سے نہیں بلکہ کئی یادگاروں کی حرمت کا لحاظ کرتے ہوئے ہونا چاہیے۔
کارنیگی میلن یونیورسٹی سے وابستہ تاریخ دان، سکاٹ سینڈیج نے کہا ہے کہ امریکیوں کے ہاں یادگاروں پر بحث کرنا پرانی روایت ہے۔ اس ضمن میں، انہوں نے ویتنام میموریل کے ڈیزائن کے تعارف پر ہونے والی تند و تیز بحث کا تذکرہ کیا۔
سینڈیگ نے کہا کہ کسی یادگار کو مٹانے سے تاریخ نہیں مٹتی بلکہ ایک نئی تاریخ جنم لیتی ہے۔