اسلام آباد میں ایک مذہبی جماعت کے دھرنے سے متعلق ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ فوجی دستے دارالحکومت میں سرکاری تنصیبات کی حفاظت پر مامور رہیں گے لیکن وہ دھرنے کے خلاف آپریشن میں حصہ نہیں لیں گے۔
فیض آباد کے مقام پر جاری دھرنے اور اس کے خلاف ہفتے کو سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے بعد کی صورتِ حال پر غور کے لیے اتوار کو وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرِصدارت وزیر اعظم ہاؤس میں مشاورتی اجلاس ہوا۔
اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیرِ داخلہ احسن اقبال، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور دیگر اعلٰیٰ حکام شریک ہوئے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک کے کسی بھی حصے میں امن بحال کرنے کے لیے فوج آئینی کردار مثبت طریقے سے ادا کرے گی۔ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج سرکاری تنصیبات کی حفاظت کے لیے موجود رہے گی البتہ مظاہرین کو منتشر کرنے کی ذمہ داری پولیس اور سول سکیورٹی اداروں کی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیرِ اعظم اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دھرنے کا معاملہ افہام و تفہیم سے طے کرنے اور دھرنا ختم کرنے کے لیے طاقت استعمال نہ کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق آرمی چیف نے اجلاس میں کہا کہ فوج آئین و قانون کے مطابق ہر حکم پر عمل کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ فوج کی مزید نفری بھیجنے کی ضرورت نہیں اور ہم اپنے ہی لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں چاہتے۔
اجلاس میں دھرنے کے خاتمے کے لیے مختلف آپشنز اور دھرنا ختم کرانے سے متعلق عدالتی احکامات پر بھی مشاورت کی گئی۔
اجلاس میں ہفتے کو آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت جاری کیا جانے والا وہ نوٹیفکیشن بھی زیرِ بحث آیا جس کے تحت فوج کو دارالحکومت میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے طلب کیا گیا ہے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ فوج اسلام آباد میں حساس سرکاری تنصیبات کی حفاظت کے لیے تعینات رہے گی۔
فیض آباد دھرنے کے شرکا اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں اور ہنگامہ آرائی کے بعد وزارتِ داخلہ نے ہفتے کی شب ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس کے مطابق امن و امان برقرار رکھنے میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے اسلام آباد میں فوج طلب کرلی گئی تھی۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ فوجی اہلکاروں کی نفری کا فیصلہ راولپنڈی اسلام آباد میں تعینات 111 بریگیڈ کے کمانڈر کریں گے۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے ڈائریکٹر جنرل پاکستان رینجرز پنجاب، میجر جنرل اظہر نوید حیات کو دھرنے سے متعلق تمام کارروائیوں کا انچارج مقرر کردیا ہے۔
انتظامیہ نے دھرنے کے مقام فیض آباد کے علاقے میں رینجرز تعینات کردی ہے جبکہ پولیس اور ایف سی کو پیچھے ہٹا دیا گیا ہے۔
رینجرز کے فیض آباد کے علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد دھرنے کے شرکا کو فیض آباد تک محدود رکھنا اور باقی شہر کو کلیئر کرانا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے فیض آباد دھرنے کے خلاف آپریشن میں مزاحمت پر دھرنے کے شرکا کے خلاف چھ مقدمات بھی درج کرلیے ہیں جن میں انسدادِ دھشت گردی کے قانون کی کئی دفعات سمیت دیگر سنگین نوعیت کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
مقدمات میں مظاہرین پر پولیس پر حملہ، تشدد، اغوا اور حبسِ بے جا میں رکھنے کے الزامات شامل ہیں۔
یہ مقدمات اسلام آباد کے تھانہ آئی نائن، تھانہ کھنّہ، تھانہ کورال اور تھانہ آبپارہ میں درج کیے گئے ہیں جن میں دھرنے کے شرکا کے قائدین پیر افضل قادری، خادم حسین رضوی اور دیگر افراد نامزد ہیں۔
اب تک دھرنا قائدین کے خلاف مجموعی طورپر درج مقدمات کی تعداد 26 ہوگئی ہے جبکہ گرفتار افراد کی تعداد 400 کے قریب پہنچ چکی ہے۔
دھرنے کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے باعث پیدا ہونے والی صورتِ حال کے بعد راول پنڈی اسلام آباد اور صوبہ پنجاب میں دو روز کے لیے تمام تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں۔