پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے سنگم فیض آباد میں مذہبی جماعتوں کے کارکنان بدستور دھرنا دیے بیٹھے ہیں جب کہ صورتحال کو خراب ہونے سے روکنے کے لیے اب اس مقام پر رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
تحریک لبیک یارسول اللہ اور سنی تحریک کے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین کو یہاں سے منتقل کرنے کے عدالتی حکم کی پیروی کرتے ہوئے ہفتہ کی صبح پولیس نے کارروائی شروع کی تھی لیکن دن بھر جاری رہنے والی مڈبھیڑ اور اس میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کے بعد شام گئے انتظامیہ نے آپریشن معطل کر دیا تھا۔
اتوار کو مظاہرین نے مبینہ طور پر ایک کار اور پانچ موٹرسائیکلوں کو نذر آتش کر دیا اور پولیس کی طرف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ایک بار پھر اشک آور گیس کا استعمال کیا گیا۔ لیکن بعد ازاں یہاں رینجرز کو تعینات کر دیا گیا اور صورتحال مزید بگڑنے سے بچ گئی۔
دھرنے اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر اتوار کو اسلام آباد میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال بھی شریک ہوئے۔
اجلاس میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے اس کے پرامن حل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ہفتہ کو وفاقی وزارت داخلہ نے امن و امان کو قائم رکھنے میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا تھا جو اسلام آباد میں حساس مقامات کی حفاظت پر مامور رہے گی۔
تاہم ایسے میں ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ فوج اس معاملے پر کچھ ابہام پاتی ہے اور اس نے وزارت سے بعض امور کو واضح کرنے کا کہا ہے۔
یہ خبریں اس ایک خط کی بنیاد پر سامنے آئی ہیں جو کہ فوج کی طرف سے وزارت کو لکھا گیا اور جس میں رینجرز کی تعیناتی کے لیے تحریری حکم نامے کے نہ ہونے کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالت نے 'آتشیں اسلحہ' استعمال کرنے کی ممانعت کی ہے جب کہ فوج کو بلانے کا مقصد طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔
اس خط کے بارے میں تاحال حکومت کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی آزاد ذرائع سے اس تصدیق ہوسکی ہے۔
مظاہرین کو متبادل جگہ پر منتقل کرنے یا منتشر کرنے کے لیے کیے جانے والے آپریشن کے بعد نہ صرف راولپنڈی، اسلام آباد بلکہ ملک کے تقریباً سب ہی بڑے شہروں اور بعض دیگر مقامات پر ان مذہبی جماعتوں کے حامیوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے اور اکثر مقامات پر ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں متعدد لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔
تمام نجی نیوز ٹی وی چینلز کی نشریات اتوار کو دوسرے روز بھی بند رہیں تاہم شام کو الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے کی طرف سے نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد نشریات بحال ہو گئیں۔ انٹرنیٹ صارفین کی سماجی رابطوں تک رسائی بھی بحال ہو گئی ہے۔