علی رانا
پاکستان کے قبائلی علاقے میں سات برس قبل قتل کیے گئے خفیہ ادارے کے ریٹائرڈ اہل کار خالد خواجہ کے قتل اور اغوا کا مقدمہ صحافی حامد میر کے خلاف درج کرلیا گیا۔ پاکستان کے جیو ٹی وی سے منسلک صحافی پر مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر درج کیا گیا ہے۔
خالد خواجہ کی اہلیہ شمامہ ملک نے تھانہ رمنا اسلام آباد کو درخواست دی تھی کہ ان کے شوہر کو عثمان پنجابی اور حامد میر نے اسلام آباد میں ان کے گھر سے اغوا کر کے وزیرستان میں قتل کرایا ہے۔ متعلقہ تھانے کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کرنے کے بعد جسٹس آف پیس کو دفعہ بائیس اے کے تحت درخواست دی گئی لیکن وہاں بھی فیصلہ حق میں نہ آنے پر سیشن جج کی عدالت سے رجوع کیا گیا۔ جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دی گئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں شمامہ ملک کے وکیل سردار طارق فرید نے موقف اختیار کیا کہ خالد خواجہ کو منصوبہ بندی کے تحت 2010ءمیں جنوبی وزیرستان لے جاکر قتل کردیا گیا جس کی آڈیو ریکارڈنگ تھانہ رمنا اسلام آباد پولیس کے پاس موجود ہے۔
اپیل میں کہا گیا کہ پولیس کو تمام تر شواہد فراہم کردئیے لیکن مقدمہ درج کرنے سےگریز کیا جارہا ہے، اس حوالے سے 22Aاے کی درخواست پر سیشن کورٹ سے رجوع کیا گیا لیکن 14 جون 2017ءکو درخواست خارج کردی، استدعا ہے کہ پولیس کو خالد خواجہ قتل کیس کا مقدمہ حامد میر اور عثمان پنجابی کیخلاف درج کرنے کا حکم دیا جائے۔
عدالت نے شمامہ ملک کی استدعا منظور کرتے ہوئے سب انسپکٹر شفیق کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا اور درخواست نمٹا دی۔
واضح رہے کہ خالد خواجہ کے قتل کے بعد ان کے اغوا کاروں اور حامد میر کے درمیان ایک ریکارڈ شدہ آڈیو سامنے لائی گئی تھی۔ اس آڈیو کی کہیں سے بھی تصدیق نہیں کی گئی لیکن خالد خواجہ کے لواحقین نے اس کے بعد شہر میں حامد میر کے خلاف بینرز آویزاں کیے تھے۔
حامد میر کے خلاف درج ایف آئی آر میں دفعہ 365/34 لگائی جو ایک سے زیادہ افراد کے مل کر کسی کو خفیہ طور پر اغواکرنے سے متعلق ہے، لیکن اس ایف آئی آر میں قتل کی دفعات شامل نہیں کی گئیں۔
تھانہ رمنا کے ایس ایچ او ارشاد ابڑو نے اس حوالے سے بتایا کہ اس مقدمہ میں لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوا تھا ، لہذا قتل کا ہونا تصدیق شدہ نہیں ہے۔ اگر اس حوالے سے بیانات یا قبرکشائی میں قتل کی تصدیق ہوئی تو مقدمہ میں ضمنی کارروائی کے دوران قتل کی دفعات شامل کی جاسکتی ہیں۔
دفعہ365/34 کی قانون کے مطابق سزا زیادہ سے زیادہ سات سال قید ہے جس کے ساتھ مجرم پر جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
حامد میر نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں اس کیس کے حوالے سے کہا کہ یہ سات سال پرانا کیس ہے جس میں سال 2010 میں عدالتوں نے انہیں کلیئر کردیا تھ، لیکن سال 2017 میں یہ کیس دوبارہ منظر عام پر آگیا ہے۔
حامد میر کا کہنا ہے کہ یہ کیس دوبارہ منظر عام پر آنے کا مقصد ان کی آواز کو خاموش کروانا ہے لیکن جھوٹے مقدمات مجھے خاموش نہیں کرواسکتے۔
خالد خواجہ لال مسجد آپریشن کے دوران بھی اکثر نظر آتے رہے اور اس وقت کی لال مسجد انتظامیہ اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے لیے کوشاں بھی نظر آئے لیکن ان کے کردار کو حکومت اور بعد میں طالبان نے بھی مشکوک جانا۔ خالد خواجہ کے قتل سے قبل بھی ایک ویڈیو طالبان کی جانب سے بھجوائی گئی تھی جس میں خالد خواجہ پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں کے لیے بدستور جاسوسی کرنے کا اعتراف کررہے تھے۔ اس کے بعد انہیں قتل کرنے کی ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں طالبان کمانڈر نے خالد خواجہ کو سر میں گولی مار کر قتل کردیا تھا۔