پاکستانی عہدے داروں نے کہا ہے کہ انٹیلی جینس کے اُس سابق افسر کو، جسے ملک شمال مغرب میں اِغوا کرلیا گیا تھا، مُردہ حالت میں پایا گیا ہے۔
خالد خواجہ، اور دو اور افراد، پاکستان انٹر سروسز اینٹیلی جینس یا آئى ایس آئى میں اُن کے ایک سابق ساتھی اور ایک صحافی مارچ میں لاپتا ہوگئے تھے۔ بعد میں ایشیا ٹائیگر نامی کسی گروپ نے ، جسے پہلے کوئى نہیں جانتا تھا، انہیں اِغوا کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
عہدے داروں نے کہا ہے کہ خواجہ کی لاش جمعے کے روز افغان سرحد کے قریب شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے کے شہر میر علی کے قریب ملی ہے۔عہدے داروں نے کہا ہے اُنہیں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔لاش کے ساتھ ایک رقعہ بھی ملا ہے جس میں خواجہ پر امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگایا ہے۔
اس بارے میں کچھ پتا نہیں چلا کہ باقی دو افراد کا کیا بنا۔ اُن میں سے ایک آئى ایس آئى کے ایک سابق عہدے دار ہیں جو کرنل امام کے نام سے معروف ہیں۔
خواجہ کے بارے میں بتایا جاتا کہ وہ مذبی جنگجوؤں کے نصب العین سے ہمدردی رکھتے تھے اور اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ اوسامہ بن لادن کو جانتے ہیں۔
انٹیلی جینس کے سابق افسر نے حال ہی میں پاکستانی عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ وہ ملّا عبد الغنی برادر سمیت افغان طالبان کے گرفتار شدہ لیڈروں کو بیرونِ ملک بھیجنے کی اجازت نہ دے۔
یہ واضح نہیں کہ آئی ایس آئی کے دو سابق افسر قبائیلی علاقے میں کیوں گئے تھے۔ لیکن اُن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ عسکریت پسندی پر کوئی دستاویزی فلم بنانے میں صحافی کی مدد کر رہے تھے۔