جنرل باجوہ کا دورہ سعودی عرب، نائب وزیر دفاع سمیت اعلٰی حکام سے ملاقاتیں

جنرل قمر جاوید باجوہ پیر کو سعودی عرب پہنچے تھے اُنہوں نے سعودی عرب کی فوجی قیادت سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کے سرکاری دورے کے دوران اعلٰی سول اور فوجی قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں دونوں ملکوں کے تعلقات اور خطے کی صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

سعودی حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے بھی بدھ کو جنرل قمر جاوید باجوہ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید سے ملاقات کی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات کے دوران سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات خاص طور پر دفاعی شعبے میں تعاون سمیت خطے کے استحکام اور سلامتی برقرار رکھنے کے اُمور پر بات چیت ہوئی۔

خیال رہے کہ پاکستانی فوج کے سربراہ ایسے وقت میں سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں جب بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پانچ اگست کو ایک ٹی وی انٹرویو میں کشمیر کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر سعودی عرب پر شدید تنقید کی تھی۔

شاہ محمود قریشی کے اس بیان کے بعد پاکستان میں بعض حلقوں کا یہ کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کا یہ دورہ تعلقات میں آنے والی خلیج کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔

لیکن پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ دورہ پہلے سے طےشدہ تھا اور اس کا حالیہ صورتِ حال سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں کسی قسم کی کوئی سرد مہری ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید پیر کو سعودی عرب پہنچے تھے جہاں اُنہوں نے سعودی عرب کی فوجی قیادت سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ایک بیان کے مطابق ریاض پہنچنے کے بعد جنرل باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی نے سعودی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل فیاض بن حامد الرویلی سمیت دیگر حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔

پاکستان فوج کےشعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار بھی جنرل باجوہ کے دورہ سعودی عرب سے قبل ایک نیوز کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی عوام کو سعودی عرب کے ساتھ دوستی پر فخر ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کسی کو یہ شک نہیں ہونا چاہیے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔

وزیر خارجہ قریشی کے بیان کے بعد یہ میڈیا رپورٹس بھی آئیں کہ شاید سعودی عرب پاکستان کے ساتھ معاشی تعاون کم کر سکتا ہے۔

خیال رہے کہ 2018 میں پاکستان کے وزیر اعظم کے دورے کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو تین ارب ڈالر قرض کے علاوہ موخر ادائیگی پر سالانہ تین ارب ڈالر مالیت کا خام تیل فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو کھلے عام سعودی عرب پر تنقید نہیں کرنی چاہیے تھی۔


پاکستان اور سعودی عرب کے حالیہ تعلقات کے بارے میں سعودی حکام کی جانب سے سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا۔

لیکن پاکستان میں تعینات رہنے والے سابق سعودی سفیر علی عواض عسیری نے 'عرب نیوز' میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کی تاریخی شراکت داری قائم ہے۔ لہذٰا دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

پاکستانی فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور ریاض کے تعلقات میں سیکیورٹی اور دفاعی اُمور میں تعاون کی ایک تاریخ ہے۔

ان کے بقول پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف اس وقت سعودی عرب کی قیادت میں قائم 40 سے زائد اسلامی ممالک کی فوج کے اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں۔

امجد شعیب کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب کے کسی دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے باوجود پاکستان کے ساتھ ان کی تعلقات کی خاص اہمیت ہے۔

اُن کے بقول اگر پاکستان کو سعودی عرب کے بارے میں بعض معاملات پر تحفظات ہیں بھی تو کھلے عام اس کا اظہار نامناسب ہے۔

امجد شعیب کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان کو اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سے توقعات ضرور ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کی اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔

امجد شعیب کے بقول پاکستان کو خارجہ پالیسی کے معاملات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اختلافی معاملات کو عوامی سطح پر اُٹھانے کے بجائے سفارتی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

دوسری جانب منگل کو ایک نیوز کانفرنس کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ سال پانچ اگست کو بھارت کے کشمیر سے متعلق اقدامات کا معاملہ پاکستان نے بھرپور انداز میں عالمی سطح پر اُٹھایا۔

اُنہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) نے بھی پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد کشمیر پر او آئی سی کے رابطہ گروپ کے چار اجلاس ہو چکے ہیں۔ ایک اجلاس کرونا وبا کے دوران ہوا جس کے بعد تنظیم کی جانب سے ایک مشترکہ بیان جاری ہوا جس میں پاکستانی موقف کی تائید کی گئی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاہ محمود قریشی کا یہ بیان اُن کے پہلے بیان کے برعکس اور معاملات بہتر بنانے کی ایک کوشش دکھائی دیتاہے۔