پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ رواں ہفتے سعودی عرب کے دورے پر جائیں گے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دورے کے دوران دو طرفہ اُمور اور دفاعی تعاون پر تبادلۂ خیال ہو گا۔
جنرل باجوہ کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے چند روز قبل ایک انٹرویو میں کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس نہ بلانے پر سعودی عرب پر تنقید کی تھی۔
دوسری جانب سعودی عرب نے پاکستان کو 2018 میں معاشی مشکلات کے پیشِ نظر دیے گئے قرض میں سے ایک ارب ڈالر واپس طلب کر لیے ہیں۔
وزیرِ خارجہ کے اس بیان کی وجہ سے بعض حلقوں کی طرف سے اس تاثر کا اظہار کیا گیا تھا کہ اسلام آباد اور ریاض کے درمیان غلط فہمیاں بڑھ رہی ہیں اور پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ غلط فہمیاں دُور کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔
تاہم پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جنرل باجوہ 16 اگست کو پہلے سے طے شدہ دورے پر سعودی عرب جائیں گے جس کا ایجنڈا دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات اور باہمی تعاون کے معاملات پر مبنی ہو گا۔
دفاعی اُمور کے تجزیہ کار اور پاکستان کی فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ اگرچہ شاہ محمود قریشی کا بیان بہت زیادہ زیرِ بحث رہا ہے۔ لیکن ان کے بقول یہ کوئی اتنا بڑا معاملہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر کوئی اثر پڑے۔
امجد شعیب کہتے ہیں کہ حال ہی میں پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی نے جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تھی۔
اُن کے بقول سعودی سفیر نے جنرل باجوہ کو باور کرایا تھا کہ سعودی عرب کی پاکستان کے لیے حمایت کے بارے میں شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔
تاہم ان کے بقول پاکستان کے وزیرِ خارجہ کا عوامی سطح پر سعودی عرب سے او آئی سی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرنا شاید مناسب نہیں تھا۔ یہ معاملہ سفارتی سطح پر بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔
امجد شعیب کہتے ہیں کہ اگر اس حوالے سے کوئی غلط فہمی ہے تو جنرل باجوہ کا دورہ اسے دور کرنے لیے اہم ہو سکتا ہے اور اس سے دونوں ملکوں کے حکام کو ایک دوسرے کا مؤقف سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔
گزشتہ سال ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ملائیشیا کی میزبانی میں بعض اسلامی ممالک کے اجلاس میں مبینہ طور پر سعودی عرب کے کہنے پر پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے شرکت نہیں کی تھی۔
مذکورہ اجلاس میں جموں و کشمیر سے متعلق گزشتہ سال کیے گئے بھارتی اقدامات کا معاملہ بھی زیرِ بحث آنا تھا۔
بعد ازاں سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہو گا جس میں کشمیر کا مسئلہ زیرِ بحث آئے گا۔
بین الاقوامی اُمور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں سعودی عرب کو پیغام پہنچانا ضروری تھا۔
ان کے بقول "پاکستان کو یہ تحفظات ہیں کہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو کم سے کم کوئی مذمتی بیان جاری کرنا چاہیے۔"
نجم رفیق کہتے ہیں کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور دونوں ملک ایک دوسرے کی شکایات کا ازالہ کر لیں گے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب نے 2018 میں پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کے پیشِ نظر تین ارب ڈالر قرض اور سالانہ تین ارب ڈالر مالیت کا تیل بھی اُدھار دینے کا اعلان کیا تھا۔
اگرچہ سعودی حکومت کا اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن تجزیہ کار امجد شعیب کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو اقتصادی طور پر مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے اور اگر انہوں نے پاکستان سے ایک ارب ڈٖالر واپس طلب کیے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان نے آئندہ ایک سال کے لیے موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کے لیے سعودی عرب کو درخواست کی ہے۔ جو ان کے بقول زیر غور ہے۔ تاہم وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ اس بارے میں فیصلہ کب ہو گا۔