پاکستان اور بھارت کی قیادت کی جانب سے گزشتہ چند روز سے ماضی کو بھلا کر تعلقات کو ازسرنو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے جس کے بعد جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی قوتوں کے تعلقات میں بہتری کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے چند روز قبل ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کو ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنا ہو گا۔
پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی بھارت سے کہا تھا کہ پاکستان مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاہم بھارت کو پہل کرنا ہو گی۔
پاکستانی قیادت کے ان بیانات کے بعد 23 مارچ کو پاکستان ڈے پر بھارتی وزیرِ اعظم اور صدر کی جانب سے اپنے پاکستانی ہم منصبوں کو اس دن کی مبارکباد پر مبنی خطوط کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان برف مزید پگھلتی دکھائی دے رہی ہے۔
بھارتی وزیرِ اعظم نے عمران خان کے نام خط میں پاکستان کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کے لیے تشدد اور دہشت گردی سے پاک ماحول بھی ضروری ہے۔
پاکستان کا یہ مؤقف ہے کہ اگر بھارت مذاکرات شروع کرنا چاہتا ہے تو اسے اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں عائد پابندیاں ختم کر کے اس کی خود مختار حیثیت بحال کرنا ہو گی۔
البتہ، اس کے جواب میں بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کشمیر اس کا اندرونی مسئلہ ہے۔ لہذٰا وہ کسی دوسرے ملک کو اس کے معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دے گا۔
ایسی صورتِ حال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات کے امکانات کے حوالے سے تجزیہ کاروں مختلف آرا رکھتے ہیں۔
سابق وزیرِ خارجہ خورشید قصوری کہتے ہیں کہ دو طرفہ بات چیت کے لیے بھارت کی جانب سے کشمیر کی خود مختار حیثیت کو بحال کرنا بہت ضروری ہے تاکہ امن عمل کو کشمیریوں کی حمایت حاصل ہو سکے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی حمایت کے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات بے سود رہیں گے۔
خورشید قصوری کہتے ہیں کہ بھارت کا کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام کرنے کی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکی۔ کیوں کہ کشمیریوں نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
خورشید قصوری کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت کے پاس سپریم کورٹ کی صورت میں راستہ موجود ہے جہاں کشمیر کی خود مختاری کے خاتمے کے خلاف درخواستیں زیرِ سماعت ہیں۔
خورشید قصوری کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ سرحدی فائر بندی کے معاہدے پر اتفاق بھی اسی صورت دیرپا ثابت ہو گا جب امن عمل آگے بڑھے گا۔
'مذاکرات کا مرحلہ ابھی دور ہے'
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فوری طور پر مذاکرات شروع ہونے کا امکان نہیں، یہ منزل ابھی دُور ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان پایا جانے والا تناؤ اور سرحدی کشیدگی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ البتہ ماحول میں بہتری کے جو بھی مضمرات ہوں انہیں خوش آئند کہنے کی ضرورت ہے۔
شمشاد احمد خان نے کہا کہ فائر بندی پر اتفاق کس نے کرایا، اس بارے میں زیادہ قیاس آرائیوں کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ سب تاریخی مسئلے رکھنے والے پاکستان بھارت کے تناظر میں بے معنی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ دنیا کو پاکستان اور بھارت کے مسائل کی سنگینی کا اندازہ ہے جو کہ نہ صرف دو طرفہ بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اُن کے بقول پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ کشمیر ہے جب تک بھارت کشمیریوں کی خواہشات کو شامل رکھتے ہوئے کشمیر پر بامقصد بات چیت نہیں کرتا یہ سمجھنا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آ جائے گی یہ ممکن نہیں ہو گا۔
بھارتی وزیرِ اعظم کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اچھے روابط کی خواہش کے اظہار پر پاکستان نے سرکاری سطح پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔
البتہ، وفاقی وزیر اسد عمر نے اپنے ٹوئٹ میں اس پیش کش کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے امن قائم کرنے کا مؤقف اختیار کر رکھا ہے۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک بیان میں کہا کہ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کشمیر پر اس کا مؤقف تسلیم کر لے گا تو ایسا ممکن نہیں، امن صرف برابری کے ساتھ ممکن ہے۔
'دونوں ممالک جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے'
خورشید قصوری نے کہا کہ دونوں ملکوں کو احساس ہے کہ ایٹمی تو درکنار وہ روایتی جنگ کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے کیوں کہ دونوں ممالک کے پاس اس قدر اسلحہ ہے کہ جیت کسی کی نہیں ہو گی۔ لہذا کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری نے انکشاف کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003 میں ہونے والے فائر بندی کے معاہدے میں امریکہ نے کردار ادا کیا تھا۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ تنازع کشمیر پر بات چیت کے بغیر فائر بندی کا زیادہ دیر تک برقرار رہنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ دوستوں کو پاکستان اور بھارت پر زور دینا چاہیے کہ وہ امن عمل کی بحالی کے اقدامات لیں۔
وہ کہتے ہیں کہ تنازع کشمیر کا حل اب خفیہ نہیں رہا کیوں کہ وہ سابق بھارتی وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے دور میں اس تنازع کے حل کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔
شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ مخض ایک خط لکھنے سے حالات میں بہتری نہیں آجائے گی بلکہ بات چیت کے بہتر ماحول کے لیے کشمیر میں پابندیوں کے خاتمے سمیت کئی اور اقدامات لینا ہوں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ نریندر مودی دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ دوطرفہ سطح پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ عالمی دباؤ سے بچا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کشمیر کو قانونی طور پر مسئلہ تسلیم کرتا ہے اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق اس کے حل کی حمایت کرتا ہے لیکن اپنے مفادات کے باعث بھارت کو مجبور نہیں کر پاتا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت امریکہ میں تبدیلی آئی ہے اور جو بائیڈن سے یہ توقع ہے کہ وہ کشمیر سمیت دنیا کے دیگر تنازعات ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
تعلقات میں بہتری کے اس ماحول میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی دوشنبہ میں ہونے والی پارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کا سامنا کریں گے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس موقع پر بھارتی وزیرِ خارجہ ایس شنکر پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے اعلی ذرائع نے ملاقات کے امکان کو رد نہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان نے دوشنبہ میں بھارتی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کی کوئی باقاعدہ خواہش ظاہر نہیں کی ہے۔