گلگت بلتستان اسمبلی کی جانب سے علاقے کو عبوری صوبے کا درجہ دینے کے مطالبے پر مبنی قرارداد کی متفقہ منظوری کے بعد اس علاقے کی متنازع حیثیت پر ایک بار پھر بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
نو مارچ کو گلگت بلتستان اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس علاقے کو عبوری صوبے کا درجہ دینے کے لیے درکار قانون سازی کرے۔ تاکہ پارلیمنٹ اور دیگر وفاقی اداروں میں بھی اس علاقے کو نمائندگی مل سکے۔
گلگت بلتستان کے رہائشی اور بیشتر سیاسی جماعتیں شروع ہی سے خطے کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ 2015 میں بھی خطے کی اسمبلی نے اس حوالے سے اسی طرح کی ایک قرارداد منظور کی تھی۔
گزشتہ برس ستمبر میں بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا باقاعدہ آئینی صوبہ بنانے کے لیے پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان مشاورت ہوئی تھی۔
وزیرِاعظم عمران خان نے بھی نومبر میں خطے کو عارضی صوبے کی حیثیت دینے کا اعلان کیا تھا۔
البتہ، سیاسی مبصرین کے مطابق، بھارت کی جانب سے اگست 2019 میں اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے اسے ملک میں ضم کرنے کے بعد گلگت بلتستان میں بھی پاکستان میں باقاعدہ انضمام کے مطالبے نے زور پکڑ لیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان اور بھارت دونوں کے زیرِ انتظام کشمیر کی جماعتیں اس قرارداد پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ گلگت بلتستان 1947 سے قبل ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے متنازع خطہ ہے۔
ان جماعتوں کا مؤقف ہے کہ مستقبل میں کسی بھی استصواب رائے میں کشمیر کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے باسیوں کی آواز اہمیت رکھتی ہے۔
گلگت بلتستان اسمبلی کی قرارداد میں مطالبات
نو مارچ کو گلگت بلتستان اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد میں وفاقی حکومت، وزیرِاعظم پاکستان و دیگر ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دے کر قومی اسمبلی، سینیٹ اور دیگر وفاقی اداروں میں مناسب نمائندگی دی جائے۔
قرارداد میں گلگت بلتستان کے وزیرِ اعلیٰ خورشید خان، قائدِ حزب اختلاف امجد حسین ایڈوکیٹ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے حاجی رحمت خالق، مجلس وحدتِ مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے محمد کاظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے غلام محمد کے بھی دستخط موجود ہیں۔
مشترکہ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبوری صوبے کا درجہ دینے کے سلسلے میں آئینِ پاکستان میں مناسب ترامیم کا بل پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ مذکورہ ترامیم سے اقوامِ متحدہ کی مسئلۂ کشمیر سے متعلق قراردادوں کی روشنی میں پاکستان کا اصولی مؤقف برقرار رہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں کے زیرِانتظام کشمیر کی بعض سیاسی جماعتوں اور علیحدگی پسند تنظیموں کے تحفظات کے پیشِ نظر قرارداد میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں اخلاقی و سیاسی حمایت حسب سابق جاری رکھیں گے۔
تاریخی پس منظر
آج کے گلگت بلتستان میں موجود علاقے تقسیمِ ہند سے قبل ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھے۔ 1935 میں برطانوی حکمرانوں نے ریاست کے مہاراجہ سے 60 سال کی لیز پر یہ علاقے اپنے کنٹرول میں لے لیے تھے۔
یکم اگست 1947 کو برطانوی راج کے آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے لیز کو مدت سے پہلے ختم کردیا جس کے تحت یہ علاقے ریاست جموں و کشمیر کے اس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ کو واپس دیے جانے تھے۔
تقسیم ہند کے موقع پر جب نوابوں اور مہاراجوں کی آزاد ریاستوں کو پاکستان یا بھارت میں الحاق کے آپشنز دیے گئے تو مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو مبینہ طور پر بھارت کے ساتھ ضم ہونے کا فیصلہ کیا۔ تاہم مسلم اکثریتی خطے نے بھارت کے ساتھ الحاق کی مخالفت کی اور رہائشیوں نے 31 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کے خلاف مسلح بغاوت کر کے یہ علاقے ان سے آزاد کرا لیے۔
اگلے ہی روز مقامی فوج اور عمائدین نے گلگت میں ایک آزاد ریاست کے قیام کا اعلان کیا مگر یہ آزادی کچھ روز ہی چل سکی کیوں کہ گلگت کے فوجی افسران اور وہاں کے بااثر عمائدین نے خطے کی آزادی اور اپنے ذاتی مفاد کے تحفظ کے پیشِ نظر پاکستان کے ساتھ دو ہفتوں کے اندر ہی الحاق کا اعلان کر دیا۔
کشمیر کے ساتھ نتھی
شروع ہی سے سابق ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے پاکستان گلگت بلتستان کے علاقوں کے انتظامی معاملات کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر، کے ساتھ ہی ڈیل کرتا رہا۔
حکومتِ پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں قائم مسلم کانفرنس کی حکومت کے مابین 28 اپریل 1949 کو ہونے والے کراچی معاہدے کی شق نمبر ایک کی ذیلی شق سات کے تحت پاکستان نے گلگت بلتستان کے علاقوں کو ریاست کا حصہ قرار دیتے ہوئے گلگت بلتستان کا انتظام عارضی طور پر اپنے کنٹرول میں لیا۔
خطے کے بدلتے ہوئے حکمرانی کے طریقے
سال 1949 میں کراچی معاہدے کے تحت پاکستانی کشمیر کی حکومت اور حکومتِ پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے تحت گلگت کے امور حکومتِ پاکستان کے سپرد کر دیے گئے۔
البتہ گلگت بلتستان کے سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کراچی معاہدے میں گلگت بلتستان کی ترجمانی شامل نہیں تھی جس کی وجہ سے پاکستان نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے مسئلے کو کشمیر کے مسئلے کے ساتھ جوڑ دیا۔
سال 1947 سے لے کر 1970 تک گلگت بلتستان میں انگریز کے بنائے قانون کے تسلسل کے لیے بنایا گیا فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (ایف سی آر) نافذ تھا جب کہ پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر، جہاں مقامی طور پر حکمرانی کرنے کا سیٹ اپ متعارف کرایا جا چکا تھا کے برعکس گلگت بلتستان کے معاملات کو اسلام آباد، وزارت برائے امور کشمیر و شمالی علاقہ جات کے تحت چلاتا رہا۔
خطے کو 1970 میں شمالی علاقہ جات کا نام دیا گیا جب کہ 1975 میں جاگیرداری نظام اور ایف سی آر کا خاتمہ کر کے دیوانی و فوج داری قوانین کا اطلاق شمالی علاقہ جات پر کر دیا گیا۔
سال 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے ’گلگت بلتستان سیلف گورننس آرڈر‘ کے نام پر ایک جامع پیکج متعارف کرایا جس کے تحت نہ صرف شمالی علاقہ جات کو گلگت بلتستان کا نام ملا بلکہ 33 ارکان پر مشتمل قانون ساز اسمبلی، وزیرِاعلیٰ کا انتخاب اور وفاق کی جانب سے گورنر کا تقرر بھی عمل میں لایا گیا۔
اگست 2015 میں بھی گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی نے خطے کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی قراردار منظور کی تھی۔
اسی سال پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے اس وقت کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز کی زیرِ قیادت گلگت بلتستان میں انتظامی اصلاحات کے لیے کمیٹی بنائی تھی۔
کمیٹی نے 2017 میں پیش کی جانے والی سفارشات میں کہا تھا کہ گلگت بلتستان کو کچھ اس طرح خصوصی درجہ دیا جائے جس سے پاکستان کے کشمیر کے مؤقف پر کوئی فرق نہ پڑے۔
کمیٹی کی مزید سفارشات میں علاقے کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی نمائندگی دینے کا بھی کہا گیا مگر ابھی تک اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جنوری 2019 کے فیصلے میں کہا گیا کہ گلگت بلتستان کی موجودہ حیثیت میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی اور علاقے کی آئینی حیثیت استصواب رائے سے طے کی جائے گی اور جب تک استصواب رائے نہیں ہو جاتا تب تک حکومتِ پاکستان گلگت بلتستان کو حقوق دینے کی پابند ہے۔
البتہ پاکستان تحریکِ انصاف کی وفاق میں حکومت تشکیل پانے کے بعد وزیرِاعظم عمران خان نے بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کو صوبہ بنانے کا عندیہ دیا۔
گلگت بلتستان میں صوبے کے حوالے سے مختلف آرا
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے صحافی مطلوب حسین موسوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گلگت بلتستان میں عوام کی اکثریت خطے کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی حامی ہے۔
ان کے بقول "یہ یہاں کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ضم ہونے سے ان کے لیے ترقی، روزگار اور دیگر مواقع پیدا ہوں گے۔"
مطلوب موسوی کا کہنا ہے کہ کچھ حلقے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو ضم کرنے کے بجائے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت کی طرز پر حکومت تشکیل دی جائے اور اسلام آباد کے تحت چلنی والی وزارت امور کشمیر اور گلگت بلتستان سے انتظامی اور مالی اختیارات لے کر جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کو دیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی چھوٹی قوم پرست جماعتیں جیسے 'بالاورستان نیشنل فرنٹ' (بی ایل ایف) دراصل ایک آزاد اور خود مختار گلگت بلتستان ریاست کا مطالبہ کرتی ہے۔
مجتبیٰ شگری نامی 'بی ایل ایف' کے ایک طالب علم رہنما کا کہنا ہے کہ "تاریخی طور پر گلگت بلتستان کے علاقے تین مرتبہ آزاد ریاست کے طور پر فعال رہے ہیں اور کشمیر سے ان کا تاریخی طور پر کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔"
ان کے بقول "پاکستان کا صوبہ بننے سے اگر لوگوں کے مسائل حل ہوتے تو بلوچستان میں پانچویں مرتبہ پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد نہ ہوتی۔"
خیال رہے کہ فروری 2019 میں پاکستانی وزارتِ داخلہ نے بی ایل ایف کے عبدالحمید خان دھڑے پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنیاد پر پابندی عائد کر دی تھی۔
کشمیریوں کا اعتراض
ماضی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت اور سیاسی قیادت کے علاوہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی حریت پسند قیادت بھی گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کی مخالف رہی ہے۔
گلگت بلتستان اسمبلی کی قرارداد کے خلاف پاکستان کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کی مختلف عدالتوں میں 11 مارچ کو ہڑتال کی گئی۔
جموں و کشمیر کے قانون دان اور ہجیرہ بار ایسوسی ایشن کے صدر واجد علی ایڈوکیٹ نے کہا کہ گلگت بلتستان کی اسمبلی کو آئینی و قانونی حق حاصل نہیں کہ وہ گلگت بلتستان کے حوالے سے پاکستان کا صوبہ بنانے کی قرارداد پیش کریں۔
ان کے بقول "ایسے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں، خصوصاً 1957 کی سلامتی کونسل کی قرارداد، کے منافی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 247 کے تحت پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔
سابق جموں و کشمیر ریاست کے سابق علاقوں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اور پاکستان کے زیر اثر جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں عالمی اداروں کی نگرانی میں خطے کے مستقبل کو طے کرنے کے لیے مارچ 1951 میں اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے ذریعے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین گروہ برائے بھارت و پاکستان (یواین ایم او جی آئی پی) قائم کیا گیا مگر یہ استصواب رائے ابھی تک منعقد نہ ہوسکا۔
اس سے قبل پانچ جنوری 1949 کو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے پاکستان اور بھارت کے مابین سمجھوتے کے لیے منظور کی گئی قرار داد میں بھی گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تسلیم کیا تھا۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین عبدالرشید ترابی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے گلگت بلتستان کو باقاعدہ آئینی صوبہ بنایا تو اس سے مسئلۂ کشمیر پر پاکستان کا دیرینہ مؤقف کمزور ہو گا اور اسے بھارت پر حاصل اخلاقی برتری ختم ہو جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "پانچ اگست کے بھارتی حکومت کے کشمیر کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے بعد پاکستان کا مؤقف کافی مضبوط ہو گیا تھا مگر گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دینے سے عالمی سطح پر یہ موقف کمزور ہو گا۔"
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاسی قیادت کا مؤقف
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں فعال علیحدگی پسند کشمیری رہنما بھی گلگت بلتستان کے رہائشیوں کے اس مطالبے کی بھرپور مخالفت کر رہے ہیں۔
گلگت بلتستان اسمبلی کی حالیہ قراردار پر ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
البتہ بھارتی کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں سید علی شاہ گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے 2017 میں ایک مشترکہ بیان میں اسلام آباد سے گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے کی کوششیں ترک کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ منصوبہ جموں و کشمیر کی متازع حیثیت پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔
ان کے اعلامیے کے مطابق "گلگت بلتستان متنازع علاقے کا حصہ ہے اور اسے اس وقت تک ایسا ہی رہنا چاہیے جب تک اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔"
بھارت کا ردِعمل
بھارت گلگت بلتستان کے خطے کو متنازع سمجھتا ہے اور ماضی میں گلگت بلتستان کی آئینی اور قانونی حثیت میں تبدیلی کی ہمیشہ سے ہی مخالفت کرتا رہا ہے۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ نے گزشتہ برس نومبر میں پاکستان کی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کوششوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ "سابق جموں و کشمیر ریاست کے 1947 میں بھارت کے ساتھ مکمل الحاق کے بعد بھارت کے زیرِانتظام کشمیر اور لداخ کے یونین خطوں جن میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے، بھارت کا قانونی حصہ ہے۔"
چین کا کردار
بعض سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے میں دلچسپی کے پیچھے چین کا کردار ہے جو پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
سی پیک منصوبے کا گیٹ وے گلگت بلتستان ہی ہے کیوں کہ پاکستان میں چین کے ساتھ سرحد اسی خطے میں ملتی ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ایک افسر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چین کسی بھی متنازع خطے میں سرمایہ کاری کرنے کا رسک لینے کو تیار نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد، گلگت بلتستان کی متنازع حیثیت کو ختم کرکے باقاعدہ پانچویں صوبے بنانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "چند ایک مذہبی جماعتوں کو چھوڑ کر مرکزی دھارے میں شامل پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں اور عسکری قیادت گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کر چکے ہیں۔"