|
ویب ڈیسک — انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے سابق فاسٹ بالر اسٹیو ہارمیسن نے کہا ہے کہ چیمپئنز ٹرافی میں افغانستان سے میچ کے بائیکاٹ کے معاملے پر کپتان جوس بٹلر پر سارا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔
ایک سو ساٹھ سے زائد برطانوی سیاست دانوں نے ایک خط میں انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کی خواتین کی کھیلوں پر پابندی کے باعث احتجاجاً افغانستان کے ساتھ اپنے میچ کا بائیکاٹ کرے۔
انگلینڈ کرکٹ ٹیم کو آئندہ ماہ 26 فروری کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں افغانستان کے ساتھ پول میچ کھیلنا ہے۔ افغانستان، انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا پول بی میں شامل ہیں۔
خط میں کھلاڑیوں اور میچ آفیشلز پر بھی زور دیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر آواز اُٹھائیں۔
'2003 میں ناصر حسین کے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا'
'گلوبل پلیئرز اسپورٹس ایجنٹس پوڈ کاسٹ' میں گفتگو کرتے ہوئے اسٹیو ہارمیسن کا کہنا تھا کہ "براہِ کرم کپتان جوس بٹلر پر سارا دباؤ نہ ڈالیں جس طرح ناصر حسین پر 2003 کے ورلڈ کپ کے دوران ڈالا گیا تھا۔"
اسٹیو ہارمیسن 2003 کے ورلڈ کپ میں انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا حصہ تھے۔ اُنہوں نے زمبابوے میں رابرٹ موگابے کی حکومت کے خلاف بطور احتجاج زمبابوے کے ساتھ میچ کے بائیکاٹ کی حمایت کی تھی۔ رابرٹ موگابے کی حکومت پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگتے تھے۔
جنوبی افریقہ، زمبابوے اور کینیا نے 2003 کے ورلڈ کپ کی مشترکہ طور پر میزبانی کی تھی۔
ہارمیسن کا مزید کہنا تھا کہ کپتان جوس بٹلر یا انگلینڈ کرکٹ ٹیم کو ہی صرف اس معاملے میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔ یہ انگلش کپتان کی لڑائی نہیں ہے بلکہ آئی سی سی کو اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 2003 میں سارا ملبہ کپتان ناصر حسین پر گرایا گیا تھا، وہ کئی روز تک اس معاملے میں پریشان رہے تھے۔ ہماری زندگیوں کو خطرات لاحق تھے۔ کھلاڑیوں اور خواتین کو سیاسی معاملات میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔
ہارمیسن انگلینڈ کی جانب سے 63 ٹیسٹ میچز اور 58 ون دے میچز کھیل چکے ہیں۔
SEE ALSO:
افغان خواتین پر میڈیکل ایجوکیشن کے دروازے بند، کیا مسائل جنم لیں گے؟افغان خواتین کے لیے طبی تعلیم کی ممانعت پر طالبان کو کڑی عالمی تنقید کا سامناافغان طالبان کی پالیسیوں سے اختلاف مگر ’انگیجمنٹ‘ بہت ضروری ہے، سفیر منیر اکرمانگلینڈ کرکٹ ٹیم نے قتل کی دھمکیوں کے بعد یہ میچ نہیں کھیلا تھا۔ تاہم اس سے قبل کپتان ناصر حسین کی قیادت میں انگلینڈ ٹیم کے کھلاڑی میچ کھیلنے یا نہ کھیلنے کے معاملے پر کئی روز تک سوچ بچار کرتے رہے تھے۔
اب ایسی اطلاعات ہیں کہ انگلینڈ کرکٹ بورڈ بائیکاٹ کے ردِعمل سے پیدا ہونے والے ممکنہ سیکیورٹی مضمرات کے بارے میں بھی فکر مند ہے۔
سن 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت نے خواتین کی کھیلوں پر پابندی لگا دی ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے فل ممبر کے طور پر افغانستان پر لازم ہے کہ وہ اپنی خواتین کرکٹ ٹیم بھی بنائے۔
لیکن اس خلاف ورزی کے باوجود آئی سی سی نے افغانستان کی مین کرکٹ ٹیم کو عالمی مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دے رکھی ہے۔
انگلینڈ کرکٹ بورڈ کیا کہتا ہے؟
انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو رچرڈ گولڈ نے بائیکاٹ کے مطالبے کی مزاحمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انگلینڈ کو میچ کھیلنے سے محروم کرنے کے بجائے آئی سی سی کی طرف سے اجتماعی کارروائی کی حمایت کریں گے۔
دریں اثنا برطانیہ کے وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر کے ترجمان نے آئی سی سی پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر قیادت کرے۔ لیکن انگلینڈ کے سابق فاسٹ بالر ہارمیسن کو خدشہ ہے کہ اس معاملے پر ساری توجہ جوس بٹلر کی طرف ہو جائے گی۔
جنوبی افریقہ نے بھی افغانستان کے خلاف میچ کھیلنا ہے۔ جنوبی افریقن کرکٹ بورڈ نے بھی اس معاملے پر انگلش کرکٹ بورڈ کی حمایت کی ہے۔
سن 1970 میں جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف مہم چلانے والے جنوبی افریقن نژاد برطانوی سیاست دان پیٹر ہین بھی بائیکاٹ کا مطالبہ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ پیٹر ہین 1970 میں اس مہم میں پیش پیش تھے جس کی وجہ سے جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم پر پابندی لگی تھی۔
کرکٹ جنوبی افریقہ کے صدر ریحان رچرڈز کہتے ہیں کہ "ہمارا خیال ہے کہ آئی سی سی کے تمام اراکین کی جانب سے زیادہ متحد اور اجتماعی نقطہ نظر زیادہ مؤثر ثابت ہو گا۔"
ماضی میں انٹرنشنل ٹورنامنٹ میں ٹیموں کی بعض وجوہات کی بنا پر دوسری ٹیموں سے میچ نہ کھیلنے کی مثالیں موجود رہی ہیں۔
سن 1996 کے ورلڈ کپ کی میزبانی پاکستان، بھارت اور سری لنکا کو مشترکہ طور پر ملی تھی۔ تاہم سری لنکا میں تامل باغیوں کے مسئلے اور سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نے سری لنکا جانے سے انکار کر دیا تھا۔
اسی طرح زمبابوے، کینیا اور جنوبی افریقہ کی میزبانی میں ہونے والے ورلڈ کپ میں سیاسی وجوہات کی بنا پر انگلینڈ نے زمبابوے جب کہ نیوزی لینڈ نے کینیا میں کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس انکار کی وجہ سے ٹیموں کو پوائنٹس سے محروم ہونا پڑا تھا۔ تاہم ورلڈ کپ کے فارمیٹ اور زیادہ میچز کی وجہ سے ان ٹیموں کے پاس اگلے مرحلے تک رسائی کے مواقع موجود تھے۔ لہٰذا ماہرین کے مطابق چیمپئنز ٹرافی میں ایسا مشکل ہو گا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔