رسائی کے لنکس

پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین کا قتل؛ واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟


  • عورتوں کے خلاف تشدد اور جرائم کے کیسز میں اضافہ اس لیے نظر آرہا ہے کہ اب واقعات تواتر سے رپورٹ ہو رہے ہیں، بانی تحریکِ نسواں
  • پہلے خواتین کو اپنے لیے آواز اٹھانے کے حق کا بھی معلوم نہیں تھا۔ لیکن اب آگاہی بڑھی ہے، شیما کرمانی
  • بہت سے لوگ اب بھی نہیں سمجھتے کہ خواتین پر تشدد کوئی ایسا مسئلہ یا جرم ہے جسے رپورٹ کیا جائے، لبنیٰ جرار
  • پاکستان میں گزشتہ برس جنوری سے نومبر تک 392 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان
  • غیرت کے نام پر قتل اُس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک ریاست مزید سخت اقدامات نہیں کرتی، شیما کرمانی

کراچی—"اس گھر سے لڑائی جھگڑوں کی آوازیں آنا معمول تھا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اسی گھر کا فرد چار خواتین کو قتل کردے گا۔"

یہ کہنا ہے کراچی کے علاقے لی مارکیٹ کے ذیشان کا جو اس گھر کے پڑوسی ہیں جہاں گزشتہ برس اکتوبر میں ملزم نے اپنی والدہ، بہن، بھابی اور بھانجی کو قتل کیا تھا۔

ملزم نے پولیس کو بیان دیا تھا کہ اسے اپنے گھر کی خواتین کا دیر تک باہر رہنا، سوشل میڈیا پر موجودگی اور آزاد خیالی پسند نہیں تھی۔ اسی لیے اس نے یہ قدم اٹھایا۔ تاہم خاندان کے دیگر افراد نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ جائیداد کا مسئلہ اور گھریلو ناچاقی کا معاملہ تھا۔

پاکستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی غیرت کے نام پر قتل کے متعدد واقعات سامنے آتے رہے ہیں اور ان کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

پاکستان میں 2024 بھی خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم اور تشدد نہ رک سکے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں جنوری سے نومبر تک 392 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ ان میں سے پنجاب میں 168، سندھ میں 151، خیبر پختونخوا میں 52، بلوچستان میں 19 جب کہ اسلام آباد سے دو کیسز رپورٹ ہوئے۔

ملک میں گزشتہ برس ریپ کیسز کی تعداد 1969، گھریلو تشدد کے کیسز کی تعداد 299، جلائے جانے کے واقعات 30 اور تیزاب گردی کے 43 کیسز سامنے آئے۔

رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں جبری تبدیلی مذہب کے کیسز کی تعداد 11 جب کہ دیگر واقعات میں ملک بھر میں 980 خواتین کو قتل کیا گیا۔

کیا واقعات میں اضافہ ہوا ہے؟

تحریکِ نسواں کی بانی شیما کرمانی کا کہنا ہے کہ عورتوں کے خلاف تشدد اور جرائم کے کیسز میں اضافہ اس لیے نظر آرہا ہے کہ اب واقعات تواتر سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔

ان کے بقول غیر سرکاری تنظیموں کے عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے سبب اب عورتوں میں یہ شعور پیدا ہو رہا ہے کہ اب تشدد برداشت نہیں کرنا۔

شیما کا مزید کہنا تھا کہ پہلے خواتین کی تعلیم بھی کم تھی اور مواقع بھی محدود تھے۔ اس لیے انہیں اپنے لیے آواز اٹھانے کے حق کا بھی نہیں معلوم تھا۔ لیکن اب آگاہی بڑھی ہے۔

صنفی تشدد کے حوالے سے کام کرنے والی سینئر صحافی لبنیٰ جرار نقوی کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک جو کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں ان کی تعداد اب بھی کم ہے کیوں کہ بہت سے لوگ اب بھی نہیں سمجھتے کہ یہ کوئی ایسا مسئلہ یا جرم ہے جسے رپورٹ کیا جائے۔

دوسری جانب لوگوں میں یہ سوچ بھی ہے کہ اگر اس طرح کے واقعات کو رپورٹ کیا تو خاندان یا دیگر لوگ باتیں کریں گے۔

لبنیٰ جرار کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین اسے گھریلو مسئلہ کہہ کر درگزر سے کام لیتی ہیں کہ مرد ہے، اُسے غصہ آگیا تھا۔ آگاہی اتنی بڑھنی چاہیے کہ لوگ اسے جرم سمجھیں اور اس کے خلاف رپورٹ کریں۔

لبنیٰ جرار کے مطابق اب سائبر وائلنس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا ہے۔ پاکستان میں اب بھی ایسے کئی خاندان ہیں جہاں لڑکی کے پاس فون کا ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے۔

ان کے بقول پھر لڑکیوں کو اپنے بھائی، باپ یا شوہر کا فون استعمال کرنا پڑتا ہے۔ کئی شوہر ایسے ہیں جن کے پاس اپنی بیوی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے پاس ورڈز ہوتے ہیں اور وہ اسے خود چیک کرتے ہیں کہ ان کے پاس کون ایڈ ہے اور انہیں کون میسیج کر رہا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں خواتین کے خلاف کوئی بھی بات استعمال میں لاکر ان پر تشدد کرنا آسان ہوتا ہے۔

صحافی لبنیٰ جرار کا مزید کہنا ہے کہ کئی ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں ہیں جن میں خواتین کے فون پر بات کرنے یا زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرنے پر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ سلسلہ کیسے رکے گا؟

شیما کرمانی کے مطابق غیرت کے نام پر قتل اُس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک ریاست مزید سخت اقدامات نہیں کرتی۔ اُن کے بقول ملک میں قوانین تو ہیں لیکن ان پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔

لبنیٰ جرار کے مطابق جب تک یہ سوچ تبدیل نہیں ہو گی کہ مرد حاکم ہے اور عورت محکوم، تب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

ان کے مطابق بچپن سے ہی لڑکوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہر چیز غصے سے حل نہیں ہوتی اور آپ کسی پر جسمانی، ذہنی، نفسیاتی تشدد نہیں کرسکتے۔ معاشرے کو یہ سمجھانا اور آگاہی دینا بہت ضروری ہے کہ عورت اور مرد دونوں برابر ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG