'مشکلات کا علم ہوتا تو امریکہ کے بجائے اپنے ملک میں ہی تعلیم حاصل کر لیتی'

فائل فوٹو

امریکہ کے اعلیٰ درجے کے نظامِ تعلیم میں بین الاقوامی طلبہ ایک اہم ستون سمجھے جاتے ہیں، جہاں دنیا بھر کے طلبہ امریکہ کی تدریسی سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں، وہیں امریکہ ان کے ثقافتی میل جول اور ان کی قابلیت و تحقیق کو استعمال میں لا کر ترقی کی نئی راہیں کھولتا ہے۔

یہ عمل مشترکہ طور پر فائدہ مند تحقیق اور تخلیق کے لیے سازگار ماحول پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس سال کرونا وائرس کے بحران نے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند بین الاقوامی طلبہ کو بھی متاثر کیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکام نے ایک اعلان میں کہا ہے کہ ایسے غیر ملکی طلبہ و طالبات جو کرونا وائرس کی وجہ سے کالجوں یا یونیورسٹیوں کی بندش کی وجہ سے کیمپس جا کر تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے اور صرف آن لائن تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں، انہیں امریکہ چھوڑ کر اپنے ملک واپس جانا ہو گا۔

جو غیر ملکی طلبہ رضاکارانہ طور پر اپنے ملک واپس نہیں جائیں گے اُنہیں امیگریشن حکام واپس بھیج سکتے ہیں۔

امریکی امیگریشن حکام نے کہا ہے کہ قانون کے مطابق غیر ملکی طالب علم نان امیگرنٹ ویزوں پر امریکہ میں مکمل طور پر آن لائن تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر کسی طالب علم کو ایسی صورت حال کا سامنا ہے تو انہیں یا تو امریکہ سے واپس جانا ہو گا یا پھر اپنے نان امیگرنٹ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں غیرملکی طلبہ: اندیشے اور وسوسے

ان اقدامات میں تعلیمی کورس میں کمی یا مناسب طبی چھٹیاں شامل ہیں۔

امریکی محکمۂ امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ نے ایک پریس ریلیز میں یہ بھی کہا ہے کہ طلبہ کے تبادلے کے پروگرام کے تحت پہلے ہی غیر ملکی طلبہ کو موسمِ بہار اور موسم گرما کے پروگراموں میں آن لائن کورس کے معاملے پر چھوٹ دی گئی تھی۔

محکمۂ امیگریشن کے مطابق طلبہ کو یہ اجازت بھی دی گئی تھی کہ وہ آن لائن کورس معمول سے زیادہ لے سکتے ہیں اور ایمرجنسی حالات میں اپنا نان امیگریشن اسٹیٹس بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اب موسم سرما کے سیمسٹر میں یہ رعایت ختم کی جا رہی ہے۔

البتہ نان امیگرنٹ ویزا پر ایسے طالب علم جن کی کچھ کلاسیں آن لائن اور بقیہ کلاسیں کیمپس میں ہوں گی، وہ اس بندش سے مستثنیٰ ہوں گے۔

تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ محکمۂ امیگریشن کے اس اعلان نے طالب علموں کو مزید پریشان کر دیا ہے کیوں کہ کرونا وائرس نے پہلے ہی غیر یقینی کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے اور یہ بھی واضح نہیں کہ کون سے تعلیمی ادارے کب معمول کی تدریس کی طرف واپس لوٹیں گے۔

امریکہ کی 'جارج میسن یونیورسٹی' سے منسلک امیگریشن کے تحقیقی ادارے کے سربراہ پروفیسر جیمز وٹی کہتے ہیں کہ ایسے فیصلے طالب علموں اور امریکہ دونوں کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر اقتصادی سطح پر دیکھا جائے تو بین الاقوامی طالب علم ہر سال امریکہ میں 45 ارب ڈالر کا سرمایہ پیدا کرتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں آن لائن تعلیم کا تجربہ مشکلات کا شکار

تعلیمی اداروں نے پالیسی واضح کرنا شروع کر دی

پروفیسر جیمز وٹی کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ تعلیم اور انسانی ہمدردی کے مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں اور اس کے اقتصادی پہلوؤں پر بھی دیرپا اثرات ہو سکتے ہیں۔

اس نئی صورت حال کے بعد مختلف تعلیمی اداروں نے پالیسی وضع کرنا شروع کر دی ہے لیکن طلبہ کہتے ہیں کہ ان حالات نے ان کی زندگی کے اہم ترین وقت میں پڑھائی سے توجہ ہٹا کر ایک مسلسل تذبذب اور بے چینی کی کیفیت میں دھکیل دیا ہے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک طالبہ یادی مینگ کہتی ہیں کہ اس اقدام نے ان کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔ انہیں دو مشکل باتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اگر میں آن لائن تعلیم حاصل کرنے کی راہ اختیار کروں تو مجھے چین واپس جانا ہو گا اور چین جانے کا ٹکٹ بہت مہنگا ہے۔ اور اگر میں کیمپس جاتی ہوں تو مجھے کرونا وائرس سے خطرہ ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت تعلیمی اداروں کو کھولنا چاہتی ہے لیکن ان حالات میں یہ خطرے سے خالی نہیں ہو گا۔"

کچھ ماہ قبل اعلان کردہ امریکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے بہت سے طالب علم پہلے ہی اپنے وطن لوٹ چکے ہیں اور آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یونان سے تعلق رکھنے والی طالبہ الیناکیفا لو گیانی ایسے ہی طالب علموں میں شامل ہیں۔ وہ اب یونان سے ہی آن لائن تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔

لو گیانی کہتی ہیں کہ ایک طرف تو انہیں علی الصبح اٹھ کر امریکی وقت کے مطابق آن لائن پڑھنا ہوتا ہے، دوسری طرف انہیں یہ فکر رہتی ہے کہ ریاست میری لینڈ میں انہوں نے جو اپارٹمنٹ کرائے پر لیا تھا، اس کا کیا کریں۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں زیر تعلیم چینی طلبہ کے والدین فکرمند

کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ گوایو نے کہا کہ اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ انہیں ان سخت حالات سے گزرنا پڑے گا تو وہ امریکہ میں تعلیم کے لیے بھاری رقم خرچ کرنے کے بجائے اپنے ملک میں ہی تعلیم حاصل کر لیتں۔

ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ امریکی امیگریشن قوانین کی پابندی اپنی جگہ پر درست ہے لیکن اس مسئلے کو ان مشکل عالمی حالات میں انسانی ہمدردی کے تحت حل کرنا چاہیے اور امیگریشن قوانین پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔

واشنگٹن میں قائم 'امریکن یونیورسٹی' سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر اکبر احمد کہتے ہیں کہ ان کے شعبے میں زیرِ تعلیم بیرون ممالک سے آئے ہوئے تمام طلبہ مارچ اور اپریل میں حکومتی اعلان کے بعد اپنے وطن واپس لوٹ گئے ہیں۔ لیکن اگر دوسرے اداروں میں طلبہ کسی وجہ سے واپس نہیں جا سکے ہیں تو ان کے مسائل کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر حل کرنا چاہیے۔

غیر ملکی طلبہ کے لیے ویزا پابندیوں میں تبدیلی کا منصوبہ

دوسری جانب امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کے لیے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنا پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ وہ بین الاقوامی طلبہ جنہوں نے آئندہ سیمسٹر میں امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا وہ اب بھی اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

محکمۂ خارجہ نے کہا ہے کہ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی نے بیرونِ ملکوں سے آنے والے طلبہ کے لیے ویزا پابندیوں میں عارضی تبدیلیوں کا منصوبہ بنایا ہے جس سے نان امیگرینٹ طلبہ امریکہ میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں گے۔