بائیڈن کی حلف برداری سے قبل مسلح مظاہروں کا خدشہ ہے: ایف بی آئی کا انتباہ

کانگریس کی عمارت پر چھ جنوری کو ہونے والے حملے کے بعد دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

ایسے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ امریکی کانگریس پر گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ کے شدت پسند حامیوں کا حملہ ممکنہ سلسلہ وار مسلح اور پرتشدد حملوں کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے اور ان حملوں کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری تک جاری رہنے کے خدشات موجود ہیں۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) نے پیر کو وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ وہ ایسے شواہد کا جائزہ لے رہے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ کچھ گروپ اور افراد انتقالِ اقتدار کے موقع پر تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں یا کسی مجرمانہ سرگرمی کا حصہ بن سکتے ہیں۔

ایف بی آئی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ وفاقی ادارہ عام طور پر کسی مخصوص خفیہ اطلاع پر تبصرہ نہیں کرتا، البتہ ادارہ قانون نافذ کرنے والے اپنے وفاقی اور مقامی شراکت داروں کی مدد کر رہا ہے۔

بیان میں ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ ہماری توجہ پرامن مظاہرین پر نہیں لیکن ان پر ہے جو اپنی اور دیگر شہریوں کی سلامتی کو تشدد اور املاک کی تباہی کے ذریعے خطرے میں ڈال رہے ہیں۔​

ایف بی آئی نے ایک الرٹ بھی جاری کیا ہے جس میں واشنگٹن اور دیگر پچاس ریاستوں میں ممکنہ طور پر تشدد کے واقعات پیش آنے کے خدشات کا ذکر ہے۔ اس الرٹ کی کاپی سب سے پہلے 'اے بی سی' نیوز اور 'یاہو' نیوز نے حاصل کی ہے۔

SEE ALSO: امریکہ: 'جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری میں ہنگامہ آرائی کا خدشہ ہے'

ایف بی آئی کے الرٹ کے مطابق وفاقی ادارے کو ایک جانے پہچانے مسلح گروپ کے بارے میں اطلاع ملی ہے کہ وہ سولہ جنوری کو واشنگٹن جانے کی تیاری کر رہا ہے۔

ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ اگر کانگریس نے موجودہ صدر کو 25 ویں ترمیم کے تحت عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی تو بہت بڑی مزاحمت ہو سکتی ہے۔

ایف بی آئی نے خبردار کیا ہے کہ مذکورہ مسلح گروہ ریاستی، مقامی اور وفاقی عمارتوں پر حملوں کی بھی دھمکی دے رہا ہے۔

مخصوص دھمکیوں پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے دیگر حکومتی ادارے بھی سیکیورٹی بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

SEE ALSO: صدر ٹرمپ کے مواخذے کے لیے ایوانِ نمائندگان میں قرارداد پیش

اندرونی سلامتی کے ادارے ہوم لینڈ سیکیورٹی نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ وہ صدر کی سیکیورٹی پر مامور یو ایس سیکرٹ سروسز کو بدھ کے روز سے تقریب حلف برداری سے متعلق سیکیورٹی انتظامات شروع کرنے کی ہدایت کر رہا ہے اور اس طرح یہ کام پہلے سے طے شدہ پروگرام سے چھ روز قبل شروع ہو گا۔

ہوم لینڈ سیکیورٹی نے پروگرام میں تبدیلی کی وجہ گزشتہ ہفتے کے واقعات اور تبدیل ہوتی ہوئی سیکیورٹی کی صورتِ حال کو قرار دیا ہے۔

نیشنل گارڈز

قبل ازیں پیر کو یو ایس نیشنل گارڈ نے بتایا تھا کہ اس نے اپنے 15 ہزار اہلکاروں کو اجازت دی ہے کہ وہ 20 جنوری کو نو منتخب صدر جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری کے لیے سیکیورٹی اقدامات میں مدد فراہم کریں۔

نیشنل گارڈز کے عہدیداروں نے بتایا کہ چھ ریاستوں سے 6200 اہلکاروں کو واشنگٹن بھیج دیا گیا ہے جو گزشتہ بدھ کے واقعات کے پیش نظر سویلین حکام کی مدد کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حامیوں نے چھ جنوری کو کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر اس وقت حملہ کر دیا تھا جب وہاں نومنتخب صدر جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا۔

SEE ALSO: مواخذے کے مطالبات میں شدت، صدر ٹرمپ انتقالِ اقتدار پر رضا مند

کیپٹل ہل پر دھاوے، توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں ایک خاتون اور پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد ہلاک اور درجنوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔

نیشنل گارڈ کی صدارتی حلف برداری کی تقاریب میں معاونت فراہم کرنے کی ایک تاریخ ہے۔ دو ہزار سولہ میں بھی صدر ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری میں نیشنل گارڈ کے آٹھ ہزار اہلکار تعینات تھے۔

یو ایس نیشنل پارک سروس نے بھی تشدد کا حوالہ دیتے ہوئے پیر کو اعلان کیا کہ وہ واشنگٹن مانومنٹ کو گیارہ جنوری سے تقریبِ حلف برداری تک عوام کے لیے بند کر رہے ہیں۔

نیشنل پارک سروسز کے مطابق نیشنل مال اور اس سے ملحق سڑکیں بھی آئندہ دنوں میں بند کی جا سکتی ہیں۔

ہنگامی حالت کا اعلان

مزید برآں، وائٹ ہاؤس نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کے لیے ایک ہنگامی حالت کے نفاذ کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں جو تقریب حلف برداری سے چار دن بعد تک نافذالعمل رہے گا۔

اس پیش رفت کے بعد ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی اور فیڈرل ایمرجنسی مینیجمنٹ ایجنسی جیسے وفاقی اداروں کا راستہ ہموار ہو گیا ہے کہ وہ ہنگامی معاونت کے لیے تمام ایسے اقدامات کر سکیں جن کی وہ ضرورت محسوس کرتے ہیں۔