بھارت میں کرونا کے وار جاری ہیں اور عوام حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ صورتِ حال کی سنگینی سے نمٹنے کے لیے بہتر اقدامات کیے جائیں۔ متعدد امریکی، برطانوی اور بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق بدھ کو سوشل میڈیا کمپنی فیس بک نے کئی گھنٹوں تک بھارت میں وزیرِ اعظم نریندر مودی سے استعفیٰ دینے کے مطالبے پر مبنی ایک ہیش ٹیگ کو ہٹائے رکھا۔ لیکن بعد میں اسے بحال کر دیا گیا۔
اخبارات کے مطابق، 12 ہزار کے قریب پوسٹس کو ہٹایا گیا، جن میں کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں بھارتی حکومت کے رویے پر تنقید کی گئی تھی۔
فیس بک کے صارفین، جو “#ResignModi” ڈھونڈ رہے تھے، انہیں ایک پیغام ملتا تھا کہ ان پوسٹس کو عارضی طور پر ہٹایا گیا ہے، کیونکہ یہ فیس بک کمیونٹی کے معیار کے خلاف ہیں۔
فیس بک کے پالیسی کمیونیکیشن مینیجر، اینڈی سٹون کا اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ اس ہیش ٹیگ کو بھارتی حکومت کے کہنے پر نہیں بلکہ غلطی سے ہٹایا گیا تھا۔ بعد میں اُن پوسٹس کو بحال کر دیا گیا تھا۔
بھارت کی وزارتِ الیکٹرونکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اُن پوسٹس کے ہٹائے جانے پر اپنے ردِ عمل میں کہا کہ حکومت نے اس ہیش ٹیگ کو ہٹانے کیلئے کوئی ہدایات جاری نہیں کیں، اور فیس بک نے واضح کر دیا ہے کہ یہ سب غلطی سے ہوا۔
برطانوی اخبار 'انڈی پینڈنٹ' کے مطابق، اس واقعے سے کئی روز پہلے بھارتی حکومت کے کہنے پر فیس بک، ٹویٹر اور انسٹا گرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے کوئی 100 کے قریب ایسی پوسٹس ہٹا دی تھیں، جن میں حکومت کی کرونا وائرس کے حوالے سے کارکردگی پر تنقید کی گئی تھی۔ ان پوسٹس میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی پوسٹیں بھی شامل تھیں۔
اخبار کہتا ہے کہ بھارتی حکومت نے تنقید کی وجہ سے ایسی متعدد تدابیر اختیار کی ہیں، جن سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں کی پوسٹس کو سینسر کیا جائے۔
اخبار کے مطابق، اس سال فروری سے بھارت کی وزارتِ الیکٹرونکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے سوشل میڈیا سے متعلق متعارف کروائے گئے نئے ضوابط کے تحت، اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ٹویٹر اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز کو کہہ سکے کہ وہ ایسا مواد ہٹادیں جسے حکومت قابل اعتراض سمجھتی ہے۔
حال ہی میں جب ٹویٹر نے بھارتی حکومت کی عالمی وبا سے نمٹنے پر تنقید کرنے والی 50 سے زیادہ پوسٹس کو ہٹا دیا تھا، تب ٹویٹر نے اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ اگر کوئی پوسٹ کسی مخصوص علاقے میں غیر قانونی تصور ہو، لیکن وہ ٹویٹر کے قواعد اور ضوابط سے متصادم نہ ہو تو پھر ٹویٹر صرف بھارت میں ایسے مواد تک رسائی روک دے گا۔