پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے پاکستان واپسی کے سفر میں کیا احساسات تھے؟ ان کے سامنے کیا خدشات تھے؟ کیا مشکلات تھیں اور ایسے کیا سیاسی مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے وہ سامنے نظر آنے والی جیل کو سازگار سمجھتے تھے؟
پاکستان کے میڈیا چینلز میں ان کی براہِ راست کوریج یا پھر لاہور میں ان کے کارکنوں کی ریلیوں کو دکھانے پر پابندی پر ان کی کیا رائے تھی؟ وائس آف امریکہ نے سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ جہاز میں سفر کرنے اور اس سفر کے دوران ان کے ساتھ بات چیت کرنے والے صحافیوں اور مختلف میڈیا تنظیموں کے نمائندوں سے گفتگو کی۔
اینکرپرسن عاصمہ شیرازی (آج ٹی وی)
عاصمہ شیرازی معروف خاتون میزبان ہیں۔ وہ نہ صرف جہاز میں میاں نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ تھیں بلکہ ان کے ایک ٹویٹ کے مطابق انہوں نے نواز شریف کی لندن روانگی سے قبل میاں نواز شریف کا ایک انٹرویو بھی کیا تھا جو ان کے ٹیلی ویژن چینل نے نشر نہیں کیا۔
عاصمہ شیرازی نے جہاز میں دورانِ پرواز میاں نواز شریف کے ساتھ خصوصی گفتگو بھی کی۔
وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو اس سفر کی تفصیل بتاتے ہوئے عاصمہ شیرازی نے کہا کہ نواز شریف اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ انہوں نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے وہ آسان نہیں۔
بقول عاصمہ نواز شریف کا موقف ہے کہ اگرچہ اس پر خار راہ کے کے بجائے ان کے سامنے کئی آسان راستے بھی موجود تھے لیکن انہوں نے صرف پاکستان کے مستقبل اور جمہوریت کی بقا کے لیے واپسی کا سوچا اور پاکستان کے ساتھ گزشتہ 70 برسوں سے جو سلوک کیا جا رہا ہے اس کو بدلنے اور بہتر کرنے کے اپنے مشن کی خاطر واپسی کا فیصلہ کیا۔
عاصمہ شیرازی کے مطابق ان سے گفتگو میں میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ مریم نواز کسی عوامی عہدےکے لیے منتخب نہیں ہوئیں اور نہ ہی ان کا اس سارے معاملے میں کوئی قصور ہے۔
عاصمہ کا کہنا تھا کہ واپسی کے سفر میں نواز شریف اگرچہ کچھ پریشان دکھائی دیے لیکن مریم نواز بہت مطمئن اور پر سکون تھیں۔ دونوں کی باڈی لینگویج سے ان کے ارادے مضبوط دکھائی دے رہے تھے۔
وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ نواز شریف کا مستقبل کے لیے کیا لائحہ عمل تھا؟ عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ انہوں نے جدوجہد کا راستہ چنا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی محاذ آرائی پاکستان 70 برسوں سے دیکھ رہا ہے۔
عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی جلا وطنی سے لے کر اب تک وہ صورتِ حال کا اگر قریب سے جائزہ لیں تو تب کے نواز شریف اور آج کے نواز شریف میں بہت فرق آ چکا ہے۔ ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اب سویلین بالا دستی کی ساری جنگ انہیں تنِ تنہا ہی لڑنی ہے اور وہ لڑیں گے۔
پاکستان کے نظامِ انصاف پر ان کے اعتماد کے بارے میں عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ میاں نواز شریف کو جسٹس سسٹم سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں ہیں۔ وہ پہلے ہی سے یہ تنقید کر رہے ہیں کہ فیصلے لکھے جا چکے تھے اور ان کا ماننا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور ان پر بد عنوانی کے الزامات ثابت نہیں ہوئے۔ البتہ مستقبل کے بارے میں انہوں نے زیادہ بات نہیں کی۔
نواز شریف کو سزا سنائے جانے کے بعد ذرائع ابلاغ پر بظاہر دباؤ ہے اور پیمرا کی جانب سے ہدایت نامہ بھی جاری کیا گیا ہے کہ مجرموں کی زیادہ تشہیر نہ کی جائے۔
اس بارے میں عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ یہ ایک عجیب دور ہے کہ نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی آمریت۔ اس بیچ کے نظام کی کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہم صحافی اس معاملے پر بٹ گئے ہیں۔ پہلے ہم ایک ہوتے تھے۔ اب ہمیں بڑی کامیابی سے تقسیم کر دیا گیا ہے۔ لہذا آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ صحافت پر سب یک زبان نہیں ہیں۔ اس معاملے پر صحافیوں نے اعتراض نہیں اٹھایا کہ نواز شریف کا انٹرویو کیوں نہیں چلایا جا رہا۔
عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ جب الطاف حسین پر پابندی لگائی گئی تو سب نے اسے تسلیم کر لیا۔ اس کے بعد اب نواز شریف پر پابندی لگائی گئی ہے تو اگر نواز شریف مجرم ہیں تو بقول عاصمہ شیرازی کے سابق صدر مشرف پر یہ پابندی کیوں نہیں لگائی گئی؟ جنہوں نے دو مرتبہ اس ملک کے قانون کو اپنے پیروں تلے روندا؟ جن پر اکبر بگٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے کیس ہیں اور جنہیں پاکستان کے قانون نے مجرم قرار دیا ہے۔ انہیں ہم کیوں ٹی وی پر دکھاتے رہے۔ اس پر پیمرا کیوں نہیں بولتا اور اس طرح کے بے شمار لوگ ہیں جو قانون اور جمہوریت کے خلاف کام کرتے ہیں۔ یہ ہمارے نظام کی ایک بدقسمتی ہے کہ اس میں سلیکٹو انصاف ہوتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج لوگوں کی ہمدردیاں نواز شریف کے ساتھ نہ ہوتیں۔
سمیع ابراہیم، سینئر صحافی
سمیع ابراہیم آج کل 'بول' اور 'اے آر وائی نیٹ ورک' سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کےچہرے پر ایک سکوت اور خاموشی تھی۔ ان کو یقیناً ادراک تھا کہ انہیں پاکستان میں کس طرح کے حالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ان کو جیل ہو گی، مشکلات ہوں گی۔ دوسری طرف مریم نواز مسکرا رہی تھیں مگر کچھ نروس بھی تھیں اور جب وہ ابوظہبی مال میں شاپنگ میں مصروف تھیں تو سکیورٹی نے ان کو روکا۔ انہوں نے خود کو کمپوز رکھنے کی کوشش کی۔ مجھے اس بار ے میں کوئی ابہام نہیں کہ دونوں کو اندازہ تھا کہ آگے مشکلات ان کا انتظار کر رہی ہیں۔
سمیع ابراہیم کے بقول میڈیا کی کوریج پر پابندیوں کی جہاں تک بات ہے وہاں تو ہر طرح کی بات ہورہی ہے، مباحثے ہو رہے ہیں۔ کوئی پابندی نظر نہیں آتی۔ البتہ جیو ٹیلی وژن نیٹ ورک کی انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ چینل کی نشریات کو بعض علاقوں میں روکا جا رہا ہے۔ اسی طرح انگریزی اخبار ڈان کو شکایت ہے کہ اس کی بعض علاقوں میں ترسیل میں رکاوٹ ہے۔ بالخصوص کنٹونمنٹ اورفوجی اسٹیبلشمنٹ کے علاقوں میں۔ لیکن عام دکانوں پر یہ اخبار بالکل موجود ہے اور بیچا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ روز قبل پاکستان فوج کے سربراہ نےجنگ اور جیو کے بارے میں گفتگو میں کہا تھا کہ یہ ادارے ایسی خبریں چھاپتے ہیں جن سے شہدا کے خاندان والوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ چینل فوجی علاقوں میں نہیں۔ باقی پورے ملک میں موجود ہیں۔ جہاں تک پیمرا کی طرف سے ضابطۂ اخلاق کی بات ہے تو یہ تو پاکستان کے آئین اور قانون میں ہے کہ مجرموں کی کوریج کی اجازت نہیں۔ الطاف حسین پر یہ پابندی ہے اور اب جب کہ نواز شریف پر بھی جرم ثابت ہو چکا ہے تو اسی ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد کیا جا رہے۔
اظہر جاوید، سینئر صحافی
اظہر جاوید لندن میں دنیا ٹی وی کے سینئر نمائندہ ہیں۔ وہ بھی میاں نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ لاہور جانے والے جہاز میں سوار تھے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بھیجی گئی اپنی تحریر میں بتایا ہے کہ نواز شریف پر اعتماد تھے کہ لوگ سڑکوں پر آئیں گے اور پاکستان کے عوام 25 جولائی کو بھی ان کی جماعت کو ووٹ دینے نکلیں گے۔
ان کے بقول میاں نواز شریف پاکستان کے عوام کے لیے بڑی تبدیلی کے لیے پر عزم ہیں۔
پیمرا کی جانب سے نواز شریف کی کوریج اور ان کے لیے نکلنےوالی ریلیوں کی کوریج نہ ہونے پر اظہر جاوید نے کہا کہ نواز شریف نے خود بتایا ہے کہ انہیں چھ مرتبہ پیشکش کی گئی ہے کہ وہ واپس وطن نہ آئیں۔ اس کے بدلے ان کو کچھ رعایات مل سکتی ہیں۔ لیکن نواز شریف، ان کے بقول، پاکستان میں اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنے واپس آئے ہیں۔ میاں نواز شریف نے میڈیا سے بھی کہا ہے کہ وہ اس فیصلہ کن موڑ پر ہمت دکھائے اور ان کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔ اور پابندیوں کی پرواہ نہ کرے۔