میاں محمد نواز شریف ایک پرائیویٹ ایئرلائنز کی پرواز سے لاہور پہنچے جس کے بعد نیب کے حکام نے انہیں گرفتار کر لیا۔ دوسری جانب ایسے میں اطلاعات آ رہی تھیں کہ انتظامیہ نے شدید رکاوٹوں کے ذریعے شہر کو جگہ جگہ سے بند کر دیا ہے۔ شہر کی صورتحال ظاہر کرنے کے لئے معروف گلوکار اور سماجی کارکن علی آفتاب سعید نے گوگل پر لاہور کا نقشہ ٹویٹ کیا جس میں ہر طرف رکاوٹیں نظر آرہی ہیں۔
کل سے سوشل میڈیا پر ن لیگ کے کارکنوں کے کریک ڈاؤن کی اطلاعات آرہی تھیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ سزا کے بعد نواز شریف کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ مگر اس کی کیا وجہ ہے کہ نواز لیگ کے کارکنوں اور راہنماؤں کو حراست میں لیا جا رہا ہے؛ اور لاہور کا محاصرہ کیوں کیا جا رہا ہے۔ پرامن احتجاج جمہوریت میں بنیادی حق ہوتا ہے۔
صحافی اور تجزیہ نگار مسلسل اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ ممتاز صحافی امتیاز عالم نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج لاہور کی صورت حال بالکل سرینگر جیسی ہے۔ دونوں جگہوں پر ایک ہی طرح کا جبر، کارکنوں پر کریک ڈاون، انٹرنیٹ کی بندش، سڑکوں پر رکاوٹیں اور لیڈروں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ دونوں طرف آزادانہ اور شفاف حق خودارادیت کی نفی کی جارہی ہے‘‘۔
اینکر پرسن مبشر زیدی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’’یہ مقبوضہ لاہور ہے!‘‘
میڈیا سنسرشپ کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے طلعت حسین نے کہا ہے کہ ’’میڈیا بلیک آؤٹ اس قدر زیادہ ہے کہ اب ٹی وی چینل ریلیوں کی ساکن تصاویر لگا رہے ہیں‘‘۔
اس پر صحافی عمر چیمہ نے ٹویٹ کیا کہ ’’میڈیا سے جتنی زیادہ بہادری کی توقع میاں نواز شریف سے کر رہا ہے اس سے کہیں زیادہ بزدلی کا مظاہرہ خود ان کی جانب سے ہو رہا ہے‘‘۔
ن لیگ کی ریلیوں کے میڈیا بلیک کی وجہ سے دن بھر صحافی اور تجزیہ نگار لاہور کی سڑکوں کی ویڈیوز لگاتے رہے۔ رضا رومی نے ٹویٹ کی کہ ’’کیونکہ مین اسٹریم میڈیا میں ن لیگ کی ریلیوں کا بلیک آؤٹ کا سامنا ہے اس لئے یہ ویڈیوز پوسٹ کر رہا ہوں‘‘۔
ایسے میں بعض تجزیہ نگار پنجاب کی نگران حکومت پر تنقید کرتے رہے کہ ان کے شہر کو بند کرنے کے اقدامات بے جا تھے۔ سلمان مسعود لکھتے ہیں کہ ’’پنجاب کی نگران انتظامیہ نے اس قدر بے ڈھنگے پن کا مظاہرہ کیا ہے کہ تحریک انصاف کو بھی ان کے اقدامات پر تنقید کرنی پڑی‘‘۔
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد عمر نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ اگرچہ مسلم لیگ ن کے مخالف کے طور پر مجھے کہنا تو یہ چاہئے کہ نواز شریف کو اتنی ہی سیاسی آزادی دینی چاہئے جتنی کہ انہوں نے اپنے مخالفین کو ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد میں دی تھی۔ مگر میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں اور مسلم لیگ نواز کو پرامن احتجاج کا حق ویسے ہی ملنا چاہئے جیسے کہ آئین ضمانت دیتا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نعیم الحق نے لکھا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے نواز شریف کی واپسی پر ضرورت سے زیادہ ردعمل دیکھ کر مجھے ہر بڑے احتجاج سے پہلے مسلم لیگ نواز کی حکومت کا پی ٹی آئی کے کارکنان کے ساتھ برتاؤ یاد آگیا ہے۔ انتخابات سے پہلے سیاسی کارکنان کی اتنے بڑے پیمانے پر حراستوں سے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
صحافی اور تجزیہ نگار ضیغم خان نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ ’’ن لیگ کے راہنماؤں کو نگران وزیر اعلی حسن عسکری سے ناراض ہونے کی بجائے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے کہ انہوں نے اپنے اقدامات سے کارکنان کو جوش دلایا اور انہیں باہر آنے پر مجبور کیا‘‘۔
جب کہ وائس آف امریکا ریڈیو کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے نگران وزیر اطلاعات علی ظفر نے کہا کہ پنجاب کی نگران صوبائی حکومت نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کے پاکستان واپس آنے سے پہلے شہر میں امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے ہیں۔