"مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے زوردار دھکا دے دیا ہو۔ اس کے ساتھ ہی میں دھڑام سے چارپائی سے منہ کے بل گر گیا۔ میں نے چاروں طرف نظردوڑائی لیکن میں نے کسی کوبھی اپنے قریب نہ پایا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھرزمین زورسے جھولنے لگی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ تو زلزلہ ہے۔"
یہ کہنا ہے افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے ضلع گیان سے تعلق رکھنے والے شیر ولی کا جن کے خاندان کے نو افراد گزشتہ بدھ کو خوف ناک زلزلے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
طالبان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پانچ اعشاریہ نو شدت کے زلزلے میں ایک ہزار کے قریب افرادہلاک جب کہ سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
بدھ کے روز آنے والے زلزے میں افغانستان کے دو صوبے خوست اور پکتیکا سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ صوبہ پکتیا کے دو اضلاع گیان اور برمل میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جو متاثر نہ ہوا ہو۔ وہاں بیشتر گھر کچی مٹی اور پتھروں سے بنے ہوئے ہیں اور وہ اب ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔
مقامی افراد کے مطابق شورشوں اورآفتوں کے مارے صوبے پکتیکا میں آنے والے زلزلے نے کئی علاقوں کولرزا کررکھ دیا اور اب بھی آفٹر شارکس جاری ہیں۔دیہات کےدیہات اورقصبوں کےقصبے صفحہ ہستی سے مٹ گئے جب کہ بجلی اورمواصلات کانظام تباہ ہو کر رہ گیاہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شیر ولی نے بتایا کہ اگرچہ اس خوف ناک زلزلے میں ان کی اپنی جان توبچ گئی ہے تاہم ان کی زندگی میں اندھیروں نے بسیرا کرلیا ہے اوراب زندگی بے معنی ہوکررہ گئی ہے۔
ان کے بقول انہوں نے زلزلے میں نہ صرف اپنی والدہ اور اہلیہ کوکھویا بلکہ گھر کے دیگر افراد بھی ہمیشہ کے لیے دورچلے گئے ہیں۔
پاکستان کی سرحد سے متصل گیان ضلع میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں زلزلے کے باعث کوئی جنازہ نہ اٹھاہو۔
اگست میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد سے طالبان کے لیے بین الاقوامی امداد بہت کم ہو چکی ہے جب کہ افغان سینٹرل بینک کے امریکہ میں موجود تقریباً نو ارب ڈالر کے اثاثوں کو امریکہ نے منجمد کر رکھا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے قدرتی آفات اور ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے والے ادارے کے ڈپٹی منسٹر غلام غوث ناصری نے بتایا کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے منجمد کی جانے والی امداد کے بعد سے افغان عوام کے معاشی مسائل شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر طالبان کے بس میں جو کچھ بھی تھا انہوں نے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جس کے بعد عالمی تنظیموں اور ملکوں سےمدد کی اپیل کی گئی۔ ان کے بقول جس شدت کا یہ سانحہ تھا اس سے نمٹنا اکیلے افغانستان جیسے ملک کے بس میں نہیں۔
SEE ALSO: امریکہ اور طالبان کی دوحہ میں ملاقات،منجمدافغان اثاثے جاری کرنے پر بات چیت متوقعانہوں نے مزید بتایا کہ اب تک ایران، پاکستان، بھارت، قطر، متحدہ امارات، چین اور خطے کے دیگر ممالک سے امداد پہنچی ہے جس میں خیمے، کمبل، کھانے پینے کی اشیا اور دوائیاں شامل ہیں۔
غلام غوث ناصری کے مطابق عالمی برادری کی جانب سے مہیا کی جانے والی امداد موجودہ حالات کےلیے تو شاید کافی ہو گی لیکن موسمِ سرما آتے ہی متاثرہ تمام علاقے برف باری کی زد میں آجاتے ہیں اور زلزلہ متاثرین کا خیموں میں گزارہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اس لیے ان کی عالمی برادری سے اپیل ہو گی کہ زلزلہ زدگان کی بحالی اور تعمیر نو میں افغان حکومت کی مدد کی جائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ زلزلے سے متاثر ہونے والے علاقے دور دراز پہاڑی سلسلوں پر پھیلے ہوئے ہیں اور شروع شروع میں وہاں لیڈی ڈاکٹروں اور نرسوں کی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا تاہم اب صورتِ حال آہستہ آہستہ مستحکم ہو رہی ہے۔
گزشتہ بدھ کو آنے والے زلزلے کو طالبان حکومت کے لیے سب سے بڑی آزمائش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ طالبان قیادت نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ ڈپٹی وزیر اعظم ملا برادر اخوند اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے بذات خود متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے لوگوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ متاثرین کی ہر سطح پر مکمل امداد کی جائے گی۔
ضلع گیان کے گاؤں چیپکی سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ علی محمد اپنے والد اور والدہ کے ہمراہ ایک ہی کمرے میں سو رہے تھے کہ زلزلے سے ان کا مکان لرز اٹھا۔
اس رات کو پیش آنے والے سانحے کی روداد وائس آف امریکہ کو بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زلزلے کے بعد وہ اور والدین گھر کے ملبے تلے دب گئے تھے اور کئی گھںٹوں کے بعد امدادی کارکنوں نے تینوں کو ملبے سے باہر نکالا۔ تاہم ان کے والد ہلاک جب کہ والدہ شدید زخمی ہوئیں۔
علی محمد کے مطابق انہیں بھی ہلکی چوٹیں آئیں تاہم اب ان کی حالت بہتر ہے۔
زلزلے سے متاثرہ شیر ولی کہتے ہیں ان کے گاؤں کے زیادہ تر افراد کا انحصار محنت مزدوری پر ہی ہوتا تھا۔ کچھ مال مویشی کا کاروبار کرتے تھے جو کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر فروخت کر کے اپنا گھر بار چلاتے تھے۔ تاہم اب انہیں اس زلزلے کے باعث شدید نقصان پہنچا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ علاقے کے تمام گھر مٹی کا ڈھیر بن چکے ہیں اور جو گھر تھوڑے بہت بچے ہیں ان کی دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور وہ کسی بھی وقت گر سکتے ہیں۔
شیر ولی کے مطابق علاقے میں پردے کا کوئی باقائدہ نظام باقی نہیں رہا۔ خواتین خیموں تک محدود ہیں جو کہ گرمی کی تپش کے باعث دن کے وقت شدید گرم ہو جاتے ہیں۔ اور انہیں خدشہ ہے کہ یہ خیمے موسم سرما میں شدید سرد ہوں گے۔