پاکستان میں الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرری کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پیدا شدہ ڈیڈ لاک آئینی بحران کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ جس کے باعث الیکشن کمیشن کے غیر فعال ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے دو اراکین کی تقرری لگ بھگ ایک سال سے التوا کا شکار ہے اور اب چیف الیکشن کمشنر کی پانچ سالہ آئینی مدت 6 دسمبر کو ختم ہونے جا رہی ہے۔
اس ضمن میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا خان نے نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے سیکریٹری پارلیمانی امور کو خط بھی لکھا دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق چیف الیکشن کمشنر نے حکومت کو باور کرایا ہے کہ ان کی مدت چھ دسمبر کو مکمل ہونے جارہی ہے۔ لہذا نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن چاروں صوبوں سے ایک ایک رکن اور چیف الیکشن کمشنر یعنی 5 ممبران پر مشتمل ہوتا ہے۔ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے امور چلانے کے لیے کم از کم تین ممبران کا موجود ہونا لازم ہے اور اگر ممبران کی تعداد تین سے کم ہو جائے تو یہ آئینی ادارہ غیر فعال ہوجائے گا۔
علاوہ ازیں الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان سے دو ممبران کی رواں سال 12 جنوری کو مدت مکمل ہونے کے بعد سے یہ دونوں تقرریاں بھی التوا کا شکار ہیں۔
الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کی تیاری کی نگرانی کرنا، الیکشن سے متعلق شکایات نمٹانا، حلقہ بندیاں اور ان پر اعتراضات وغیرہ کے مسائل اور اس طرح کے دیگر امور چلانا ہوتا ہے۔
'حکومت نے آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی'
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ حکومت نے نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی اور آئندہ ماہ الیکشن کمیشن غیر فعال ہوجائے گا۔
اُن کا کہنا ہے کہ نئے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے بروقت تقرر کے لیے حکومت کو ایک سال قبل اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے تھا۔ تاہم حکومت نے غیر ضروری سُستی اور کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے۔
کنور دلشاد نے کہا کہ 1956 میں وجود میں آنے والا الیکشن کمیشن پہلی بار غیر فعال ہونے جارہا ہے اور یہ ملک کی تاریخ میں ایک نئی روایت ہوگی۔
کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دو ارکان کی عدم موجودگی میں الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ نہیں کر سکے گا۔ اُن کے بقول، "الیکشن کمیشن ضمنی الیکشن اور بلدیاتی انتخابات بھی نہیں کراسکے گا جبکہ انتخابی فہرستوں کا معاملہ بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس (ر) سردار رضا خان نے چھ دسمبر 2014 کو چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھالا تھا اور ان کی پانچ سالہ مدت رواں سال چھ دسمبر کو مکمل ہوجائے گی۔
الیکشن کمیشن ممبران کی تقرری پر آئینی بحران کیوں ؟
آئین کی شق 213 (2 اے) کے تحت وزیرِ اعظم کو الیکشن کمشنر یا ممبران کی تعیناتی کے لیے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سے مشاورت کرنا ہوتی ہے۔
وزیرِ اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں دونوں جانب سے تین ناموں پر مبنی ایک فہرست پارلیمانی کمیٹی کو بجھوائی جاتی ہے۔ جو کہ حکومت و اپوزیشن کے برابر اراکین پر مشتمل ہوتی ہے۔
SEE ALSO: غیر ملکی فنڈنگ کے مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہپارلیمانی کمیٹی ان تین ناموں میں سے کسی ایک پر اتفاق کرنے کے بعد انہیں منتخب کر سکتی ہے اور صدرِ مملکت چیف الیکشن کمشنر کا نوٹی فکیشن جاری کرتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے حوالے سے اس آئینی بحران کی وجہ بھی یہی طریقہ کار ہے۔ کیونکہ آئین میں اس حوالے سے یہ متعین نہیں کیا گیا کہ اگر پارلیمانی کمیٹی کسی نام پر متفق نہ ہو سکے تو اس کے بعد کیا طریقہ کار اپنایا جائے گا۔
حکومت اپوزیشن میں ڈیڈ لاک کیوں؟
سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی مدت مکمل ہونے کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے درمیان نئے ارکان کی تعیناتی کے لیے خط و کتابت تو کی جاتی رہی۔ تاہم اس سے متعلق کوئی باضابطہ یا بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی۔
پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کے بعد صدر مملکت نے ماہرِ قانون خالد محمود صدیقی کو سندھ جبکہ محمد منیر کاکڑ کو بلوچستان سے الیکشن کمیشن کا رکن مقرر کیا تھا۔
تاہم چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے ان دونوں ارکان سے حلف لینے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے مؤقف اپنایا تھا کہ ان ارکان کی تعیناتی کے لیے آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
SEE ALSO: اسلام آباد ہائی کورٹ: الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کا آرڈیننس معطلوفاقی حکومت نے چیف الیکشن کمشنر کے حلف نہ لینے کے اقدام پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور حکومتی وزراء نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کے بیانات بھی دیے تھے۔
وزیرِ قانون فروغ نسیم کے مطابق آئین کے مطابق اگر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف میں کسی نام پر اتفاق نہ ہو تو ایسی صورت میں تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اس پر آئین خاموش ہے۔ اُن کے بقول، جہاں آئین خاموش ہو جائے تو صدر مملکت اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے کی گئی ان نئی تعیناتیوں کو چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد ملک میں ایک ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے جو کہ اب الیکشن کمیشن کو غیر فعال کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
حکومت کا یہ اقدام اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ جہاں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت ریماکس دیے کہ ایسے معاملات کو پارلیمنٹ کے بجائے عدالتوں میں کیوں لایا جاتا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری کا معاملہ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو حل کرنے کا کہا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اطلاعات ہیں کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن کو خط لکھ کر ممبران کی تعیناتی کے لیے تجویز کردہ نام بجھوانے کا کہا ہے۔
الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری میں ڈیڈ لاک کے باعث حکومت نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے اپوزیشن کے ساتھ تاحال کسی قسم کی مشاورت نہیں کی۔
آئینی بحران کیسے ٹل سکتا ہے؟
پارلیمانی امور کے صحافی ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کے تقرر کے لیے آئین میں واضح طریقہ کار دیا گیا ہے اور صدرِ مملکت نے آئینی ڈھانچے سے ہٹ کر دو ممبران الیکشن کمیشن کا تقرر کیا۔ جن سے چیف الیکشن کمشنر نے حلف نہ لے کر آئین کی پاسداری کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے عدم اتفاق کے باوجود صدر مملکت کے پاس الیکشن کمیشن کے ارکان کی از خود تعیناتی کا اختیار موجود نہیں ہے۔
ان کے مطابق حکومت نے تسلیم کر لیا ہے کہ ان کی تعیناتی کا طریقہ کار درست نہیں تھا۔ اسی وجہ سے اسپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن سے نئے نام مانگے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ آئین میں وزیرِ اعظم کو الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری کے لیے اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کا کہا گیا ہے تو ملک کے انتظامی سربراہ کو قائدِ حزب اختلاف سے بات کرنے میں قباحت نہیں ہونی چاہیے۔
اُنہوں نے کہا کہ اگر وزیرِ اعظم سندھ اور بلوچستان کے ممبران کی مدت مکمل ہونے پر قائد حزب اختلاف سے بامعنی مشاورت کرتے تو آج آئینی بحران کی سی کیفیت پیدا نہ ہوتی۔
اُن کے بقول، "اگر الیکشن کمیشن کے ممبران کا تقرر اتفاق رائے سے نہیں کیا جاتا تو آئندہ عام انتخابات پر بہت سے سوالات کھڑے ہوسکتے ہیں۔"
ایم بی سومرو کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کے ذریعے الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی فوری تعیناتی سے یہ آئینی بحران ٹل سکتا ہے۔