امریکہ کی ایک عدالت نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مبینہ انسانیت سوز مظالم کے الزامات پر بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو آئندہ سال 12 فروری کو طلب کر لیا ہے۔
امریکی ریاست ہیوسٹن میں دائر کیے گئے اس مقدمے کو سات امریکی وکلأ نے تیار کیا ہے جب کہ اس مقدمے کے مدعی ایک بھارتی کشمیری نژاد امریکی شہری ہیں۔
مقدمے میں نریندر مودی کے علاوہ بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ اور بھارتی کشمیر میں فوج کے سربراہ کنول جیت سنگھ ڈھلوں کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
مقدمے میں وزیرِ اعظم مودی اور ان کے رفقا پر کشمیر میں 5 اگست 2019 کے بعد مبینہ انسانیت سوز مظالم کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارتی انتظامیہ کشمیر میں نسل کشی کر رہی ہے۔ ہیوسٹن کی فیڈرل ڈسٹرکٹ کورٹ نے پری ٹرائل کانفرنس کا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے فریقین سے کہا ہے کہ وہ پیش ہو کر بتائیں کہ یہ مقدمہ کیسے آگے بڑھایا جائے۔ اور اگر خارج کیا جانا ہو تو کس بنیاد پر ایسا کیا جائے؟
خیال رہے کہ یہ کیس ایسے وقت میں دائر کیا گیا تھا جب وزیرِ اعظم مودی بھارتی نژاد امریکیوں کے اجتماع سے خطاب کے لیے ہیوسٹن پہنچے تھے۔ اس اجتماع میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی شرکت کی تھی۔
بھارتی وزیرِ اعظم نے کئی دن تک نیو یارک میں مصروفیات کے بعد جمعے کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بھی خطاب کیا ہے۔
مقدمہ دائر کرنے والی وکلأ کی ٹیم کے رکن سلمان یونس نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مقدمہ امریکی قانون ’ٹارچرڈ وکٹم پروٹیکشن‘ ایکٹ کے تحت دائر کیا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت انسانیت سوز جرائم میں ملوث کسی بھی ملک کا عہدےدار اگر امریکہ میں موجود ہو تو اس کے خلاف امریکی عدالت میں مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
سلمان یونس کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم کے خلاف عدالت سمن جاری کر چکی ہے۔ جسے وہ ڈاک کے ذریعے ہیوسٹن میں بھارتی قونصل جنرل کو بھی پہنچا چکے ہیں۔ لیکن قانونی تقاضا یہ ہے کہ سمن ان کے ہاتھ میں بھی دیے جائیں۔
امریکی قوانین کے مطابق، سربراہان مملکت اور دیگر افراد اگر اقوام متحدہ کے اجلاس میں شریک ہوں اور اس عمارت کے اندر موجود رہیں تو ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن وزیرِ اعظم مودی اجلاس سے پہلے اور اس کے بعد نجی تقاریب میں بھی شرکت کر رہے ہیں۔
اس لیے مدعیان کے وکلأ کی کوشش ہے کہ نریندر مودی تک عدالت کے سمن پہنچا دیے جائیں تاکہ کارروائی آگے بڑھ سکے۔
اس مقصد کے لیے پراسیس سرور کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ پراسیس سرور وہ شخص ہوتا ہے جو عدالتی سمن کو مقدمے میں نامزد افراد کے ہاتھ میں پہنچاتا ہے۔
سلمان یونس کے مطابق، نیو یارک میں ’بل اینڈ میلنڈا گیٹس‘ کے نجی ایوارڈ فنکشن کے دوران سکیورٹی نے پراسیس سرور کو اندر جانے سے روک دیا اور کہا کہ عدالتی سمن بھارتی سفارت خانے یا قونصل جنرل کو پہنچا دیا جائے۔
سلمان یونس نے کہا کہ مقدمے میں بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے فراہم کردہ شواہد کے علاوہ کچھ ایسے شواہد بھی شامل کیے گئے ہیں جو براہ راست ان افراد کی طرف سے آئے جن کے خاندان بھارتی کشمیر میں مظالم کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ بھی اس مقدمے میں مدعی ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ نے جب واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے اور ہیوسٹن میں بھارتی قونصل خانے سے تحریری اور زبانی طور پر رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بھارتی سفارت خانے کے پریس سیکریٹری شمبھو حقی نے یہ کہہ کر جواب دینے سے گریز کیا کہ وہ آج کل بیمار ہیں۔ انہوں نے عدالتی سمن موصول ہونے کی تصدیق یا تردید بھی نہیں کی۔
مبصرین بھارتی سفارت خانے کی اس خاموشی کو جان بوجھ کر اختیار کیا جانے والا رویہ قرار دے رہے ہیں۔ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے وائس آف امریکا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی عہدےداروں کی خاموشی بری پبلک ریلیشننگ ہے۔ یہ مقدمہ زیادہ دور تک نہیں جا سکے گا کیوں کہ وزیرِ اعظم ہونے کی وجہ سے انھیں استثنیٰ حاصل ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مبصرین کے بقول، اصل جیت ان افراد کی ہے جو وزیر اعظم مودی جیسے شخص کے خلاف اس قسم کا مقدمہ دائر کرنے میں کامیاب ہوئے جنہیں اپنے امیج کی بہت فکر رہتی ہے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ عدالت کی جانب سے طلبی کا نوٹس جاری ہونے سے بھارت ایک ناگوار صورتِ حال میں پھنس گیا ہے اور اسے سوچنا پڑے گا کہ کیا جواب داخل کرنا چاہیے۔ اگر بھارت نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا تو بھارتی حکومت کا مزید برا تاثر قائم ہوگا۔
امریکہ میں قائم نجی تنظیم ’گلوبل کشمیری پنڈت ڈائیسپورا‘ کی کور کمیٹی کے رکن ڈاکٹر سریندر کول نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس آرٹیکل 370 کی منسوخی پر شور مچایا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے 1990 میں کشمیری پنڈتوں کی نسل کشی کی گئی تھی جس میں 42 ہزار افراد مارے گئے تھے۔
ان کے بقول، ان جیسے لوگ اپنے ہی ملک میں مہاجر بن جانے پر مجبور ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شق کی منسوخی کو وہ اچھا فیصلہ سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر کول کا کہنا تھا کہ جن باتوں کو بنیاد بنا کر وزیر اعظم مودی کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ ان تمام پہلوؤں کا بھارتی سپریم کورٹ نے جائزہ لینے کے بعد حکومت کو کلین چٹ دی ہے۔ لہٰذا، اس مقدمے کی حیثیت دکھاوے کے اقدام سے زیادہ نہیں ہے۔
سلمان یونس کے مطابق اس سول مقدمے میں وزیر اعظم مودی اور دوسرے نامزد افراد کی گرفتاری تو نہیں ہو سکتی۔ لیکن، مدعی کو معاوضہ دیا جاتا ہے اور عدالت اپنے فیصلے میں تسلیم کرتی ہے کہ تشدد اور انسانیت سوز جرائم ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ وزیر اعظم مودی پر انسانیت سوز جرائم کے خلاف امریکہ میں مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ وہ 2014 میں جب پہلی بار امریکہ آئے تو نیویارک کی عدالت میں اسی قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں 2002 کے گجرات فسادات کے شواہد کو بنیاد بنایا گیا تھا۔