کرونا وائرس نے پوری دنیا کے انسانوں کو صحت کے ایسے مسئلے سے دوچار کر دیا ہے کہ بہت سے عالمگیر مسائل سے توجہ ہٹ گئی ہے۔ عام طور پر انسان کی جدوجہد زندگی کی بنیادی سہولتوں اور شخصی آزادیوں کی لئے ہوتی ہے، مگر کرونا وائرس کی وبا نے اس کیلئے خود زندگی بچانا ہی مشکل کر دیا ہے۔
وہ جو اپنی بات کہنے کیلئے آزادی تحریر و تقریر کیلئے حکومتوں سے ٹکرا جانے کو تیار تھے، اب خود ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے پر مجبور ہیں۔
اور یہی وقت ہے کہ آزادیاں سلب کرنے والے با اختیار لوگ اپنی من مانی کا موقعہ تلاش کر رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس کا احساس اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کمشن کی ہائی کمشنر مشعل بیچلیٹ نے دلایا ہے۔ وہ خبردار کرتی ہیں کہ اگر توجہ نہ دی گئی تو کرونا وائرس کی وباء دنیا میں موجود عدم مساوات کو اور وسیع کر دے گی۔ اور اس کا نشانہ غریب اورمعذور، قلیتیں، خواتین اور معمر افراد بنیں گے۔
اقوامِ متحدہ کی عہدیدار نے ان حکومتوں پر سخت نکتہ چینی کی ہے جو اس وبا کے دوران ہنگامی اقدامات کی آڑ میں اپنی جابرانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان لوگوں کے خلاف تادیبی کارروائیاں کر رہی ہیں جو ناکافی سہولتوں پر آواز اٹھاتے ہیں، خاص طور پر ان صحافیوں کے خلاف جو حکومت کے اقدامات پر تنقید کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمشن کی سربراہ نے کہا ہےکہ انہیں ان حکومتوں کے بارے میں تشویش ہے جو اس عالمی وبا کا فائدہ اٹھا کر اپنی طاقت میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں، جس کی کوئی حد نہ ہو اور جس پر کسی کی نظر نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ بعض صحافیوں، صحت کے کارکنوں، عہدیداروں اور عام لوگوں کے خلاف اس لئے کارروائیاں کی گئیں کہ انہوں نے حکومت کے ان اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی جو عام لوگوں کی حفاظت اور اس وبا سے بچاؤ کیلئے ناکافی تھے۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومتوں کو درست اطلاعات تک رسائی کو ممکن بنانا چاہیئے کیونکہ شفافیت اس وبا کے دوران زندگیاں بچانےکی ضامن ہو سکتی ہے۔
شکاگو کے احتشام نظامی انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہیں اور ان کی تنظیم فرینڈز فار ہیومینیٹی روہنگیا پناہ گزینوں کیلئے خاص طور پر اور دیگر بے گھر لوگوں کیلئے عمومی طور پر کام کرتی ہے۔
تمام اطلاعات تک رسائی لوگوں کیلئے ہمیشہ ضروری نہیں ہوتی مگر جن معلومات سے انسانی زندگی کی بقا وابستہ ہو اسے پوشیدہ رکھنا یقیناً جرم کہلا سکتا ہے۔ احتشام نظامی کہتے ہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی تو اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب چین کے اس ڈاکٹر کی بات کو جرم سمجھ لیا گیا تھا جس نے پہلے پہل کرونا وائرس سے خبردار کرنے کی کوشش کی تھی۔
چین کے صوبے ووہان کے آپتھیلمالوجسٹ ڈاکٹر لی وینلیانگ نے30 دسمبر کو اپنے ساتھیوں کو ایک پیغام میں اس وائرس کے بارے میں بتایا تھا۔ مگر بعد میں یہی خبر دینے والے مزید آٹھ افراد کے ساتھ انہیں پولیس نے طلب کر لیا کہ وہ افواہیں پھیلا رہے ہیں۔ بعد میں ڈاکٹر لی ایک مریض کا علاج کرتے ہوئے اس وائرس کا شکار ہو گئے اور چھ فروری کو ان کا انتقال ہو گیا۔
ڈاکٹر مہدی حسن پاکستان میں انسانی حقوق کمشن کے چئیرمین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وائرس سے اگرچہ پاکستان میں ہزاروں لوگ متاثر ہوئے ہیں مگر پھر بھی انتہائی تشویش نہیں پائی جاتی۔
تاہم، جس انداز میں دنیا بھر کی معیشتیں اور پاکستان کی معیشت متاثر ہوئی ہے اس سے پاکستان میں ان لوگوں کی زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے جو پہلے ہی دو ڈالر روزانہ سے کم کماتے ہیں اور یقیناً ان کیلئے بنیادی حقوق حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ دوسرے حکومتیں بھی اس صورتِ حال میں اگر کوئی اقدام کرتی ہیں اور ان غریب لوگوں کیلئے کسی پیکیج کا اعلان کرتی ہیں تو زیادہ تر سیاسی مفاد ان کے پیشِ نظر ہوتا ہے۔
احتشام نظامی کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم جن لوگون کیلئے کام کرتی ہے وہ زیادہ تر وہ روہنگیا ہیں جو پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک مقام پر کئی افراد اکٹھے رہتے ہیں پھر سوشل ڈسٹینسنگ کیسے ہو۔ جن کے پاس پینے کا پانی نہ ہو وہ بار بار ہاتھ دھونے کیلئے صابن اور پانی کہاں سے لائیں۔ وہ کہتے ہیں انسان تو وہ بھی ہیں اور انسانی حقوق کے حقدار بھی۔
کرونا وائرس کی وبا ختم ہوگی تو دنیا بدل چکی ہوگی۔ وقت کا پہیہ اپنی مرضی سے واپس گھمانا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ تاہم، انسان وہی اور اس کی ضروریات بھی وہی۔۔۔حکومتیں پھر بھی من مانی کریں گی اور اقتدار کی ہوس کبھی بھی ختم نہیں ہوگی۔