محدود وسائل کے ساتھ رہنے والے تارکینِ وطن ان حفاظتی اقدامات پر عمل نہیں کر سکتے جو کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ناگزیر ہیں۔
دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو اب کرونا وائرس کی شکل میں ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔ محدود وسائل کے ساتھ رہنے والے یہ افراد ان حفاظتی اقدامات پر عمل نہیں کر سکتے جو کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ناگزیر ہیں۔
انسانی حقوق اور امیگریشن کے ماہر اور برطانوی سپریم کورٹ کے وکیل بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ غریب اور امیر ملکوں کی حکومتوں کو جھنجھوڑے اور انہیں یونیفائیڈ ریسپانس کی طرف لیکر جائے، تاکہ بین الاقوامی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم کیا جا سکے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کا معاملہ تپ دق، پولیو اور ایڈز سے بڑھ کر خطرناک ہے اور ویسے ہی جواب کا متقاضی ہے۔
دنیا بھر میں حکومتیں اپنے عوام کے تحفظ کے لئے ضروری اقدامات کر رہی ہیں۔ لیکن، یہ پناہ گزیں جو کرونا کے خطرے کے حوالے سے ہائی رسک پر ہیں ابھی تک اس توجہ سے محروم ہیں جو ان کی بقا کے لئے درکار ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری انسانی بنیادوں پر اس محروم گروپ کے لئے اپنے فرائض کی ادائیگی کرے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کرونا وائرس کو جنگ عظیم دوم کے بعد انسانیت کے لیے بدترین بحران قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ ایک بڑا عالمی ادارہ ہونے کی حیثیت سے ان لوگوں کے لئے کیا کر سکتا ہے اور اس کے منشور کے تحت ان تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے حقوق کیا ہیں؟
لندن میں مقیم بیرسٹر امجد ملک نے، جو قانونی ماہر ہونے کے ساتھ انسانی حقوق کے علمبردار بھی ہیں اور تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے عدالتی کیسز پر کام بھی کرتے ہیں، وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رائے میں ہر وہ شخص جو رنگ، نسل، مذہب، قومیت یا پھر اپنے مخصوص سیاسی اور مذہبی نظریات یا کسی مخصوص سماجی گروپ کا حصہ ہونے کی وجہ سے جبر اور ایذا سے بچنے کے لئے اپنے ملک کو چھوڑتا ہے، وہ 1951 کے جنیوا کنونشن کے تحت رکن ملکوں میں پناہ حاصل کر سکتا ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران دنیا کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اور یہی غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کا تقاضہ کرتے ہیں۔
بیرسٹر ملک بتاتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون کے تحت رکن ملک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ جبر سے بچنے کے لئے پناہ کے متلاشی افراد کو ان ملکوں میں واپس نہ بھیجیں جہاں اس وبا کا زور ہے، کیونکہ یورپین کنونشن آن ہیومن رائیٹس 1950 کی شق 3 کے تحت یہ غیر انسانی اور ذلت آمیز رویہ ہو گا۔
اگر پناہ گزینوں کو موت کے حقیقی خطرے سے دوچار کر دیا جائے، یہ پناہ گزیں اپنے میزبان ملکوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ لیکن، منشور کے تحت میزبان ملک ان کا خیال رکھنے کے پابند ضرور ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ کرونا وائرس سے مقابلے کے لیے اتحاد درکار ہے اور مؤثر اقدامات صرف اسی صورت میں اٹھائے جا سکتے ہیں، جب عالمی برادری یک جہتی کا مظاہرہ کرے، کیونکہ اس وقت انسانیت کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔
اس سوال پر کہ ان حالات میں اس عالمی بحران سے نمٹنے کے لئے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کا کردار کیا ہونا چاہئے، بیرسٹر ملک نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کو آگے بڑھ کر بین الاقوامی ٹیسٹنگ کی ذمہ داری سنبھال لینی چاہئیے۔ کئی غیر ذمہ دار حکومتیں اور ادارے ابھی بھی نمبر گیم میں الجھے ہوئے ہیں اور اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ اقتصادی نقصان کے تناظر میں کاروبار زندگی بند نہ کرنا پڑے۔ انہیں ہوش میں آنا چاہئے، کیونکہ جانی نقصان اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے کرونا وائرس سے متاثرہ غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی معاشی مدد کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ 75 سال قبل جب سے اقوامِ متحدہ کی تشکیل ہوئی، اس کے بعد سے کرونا وائرس کی عالمی وبا سب سے سخت امتحان ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔