رسائی کے لنکس

'کرونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ڈھائی کھرب امریکی ڈالر کی ضرورت'


اقوام متحدہ (فائل)
اقوام متحدہ (فائل)

اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ڈھائی کھرب امریکی ڈالر کی ضرورت ہے، جبکہ رپورٹ میں پاکستان کو بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا جو اس بحران سے شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی عالمی کساد بازاری بہت سے ترقی پزیر ممالک کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اور ان کی پائیدار ترقی کی جانب سفر تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔ ان میں پاکستان کے علاوہ افریقہ کے بعض ممالک، لاطینی امریکہ، جنوبی کوریا، بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا کی معیشتیں شامل ہیں۔

ادارے کے مطابق، ان ممالک میں دنیا کی آبادی کا دو تہائی آباد ہے جو کرونا وائرس کی وبا کے باعث ایسے معاشی نقصان کا سامنا کر رہے ہیں جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اس لئے ایسے ممالک کی مدد کے لئے ڈھائی کھرب امریکی ڈالر کے پیکیج کی ضروت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان ممالک کو اس وبا سے درپیش معاشی چیلنج ڈرامائی اور 2008 میں عالمی معاشی بحران کے مشابہ ہے اور اس معاشی بحران کے اصل نقصانات کی پیش گوئی فی الحال مشکل امر ہے۔ لیکن، ایک بات واضح ہے کہ ابھی یہ مشکلات مزید بڑھیں گی اور صورتحال مزید خراب ہوگی۔

رپورٹ کے مطابق، چین میں کرونا وائرس کی وبا کو جنم لینے اور اسے دنیا بھر میں پھیلنے سے ان ممالک کو سرمایہ کے انخلا، کرنسی کی قیمتوں میں کمی، برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدن میں کمی اور سیاحت سےحاصل شدہ محصولات میں کمی کی صورت میں مشترکہ نقصانات ہوئے ہیں اور کئی شعبوں میں ہونے والے نقصانات 2008 کے عالمی معاشی بحران سے زیادہ ہو چکے ہیں۔

لیکن، اقوام متحدہ کا ادارہ برائے تجارت و ترقی اس بارے میں زیادہ پر امید نہیں کہ ترقی پزیر ممالک کی معیشتیں اس تیز رفتاری سے ان نقصانات کا ازالہ کر پائیں گی جو پچھلی دہائی میں آنے والے معاشی بحران کے بعد دیکھنے میں آیا تھا۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سرمایہ کاری کی مد میں ان ممالک سے صرف دو ماہ میں 59 ارب ڈالرز کا انخلا ہوا ہے، جو گزشتہ مالی بحران کے دوران ان ممالک سے نکلنے والے سرمائے (26.7 ارب ڈالر) سے بھی دگنا ہے۔ اسی طرح 2020 کے پہلے تین ماہ کے دوران ترقی پزیر ممالک کی کرنسیوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 5 سے 25 فیصد تک کمی دیکھنے میں آچکی ہے۔ مختلف اجناس کی قیمتوں میں 37 فیصد تک کمی دیکھی جا چکی ہے جس پر مختلف ترقی پزیر معیشتوں کو غیر ملکی زرمبادلہ کا بڑا انحصار ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں قومی معیشت پہلے ہی سست معاشی نمو کا شکار ہے، 2019-20 میں شرح نمو 2018-19 کے مالی سال سے بھی کم رہنے کی توقع ہے، جو حکومت کی جانب سے رکھے گئے ٹارگٹ یعنی 2.4 فیصد سے بھی کم رہنے کی پیش گوئی کی جا رہی ہے، جبکہ بڑے پیمانے پر اشیا کی تیاری بھی منفی شرح نمو ظاہر کر رہی ہے۔

اسی طرح زرعی میدان میں کپاس کی پیداوار بھی کم رہنے کی توقع ہے۔ کرونا وائرس کی وبا کے باعث ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں بھی سست روی کا شکار ہیں اور اس سے ہماری برآمدات پر منفی اثر پڑے گا۔ اسی طرح اسٹاک مارکیٹ بھی مسلسل دباو کا شکار نظر آ رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمائے کا انخلا ہے۔ اسی طرح درمیانے اور چھوٹے درجے کی صنعتیں بھی لاک ڈاون کی وجہ سے بند پڑی ہیں۔

سابق وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ حکومتی ٹریژری بلز میں کی گئی بڑی سرمایہ کاری سے بھی پیسے مسلسل نکالے جا رہے ہیں، جس سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی جبکہ روپے کی قیمت میں تقریباً 7 فیصد کمی دیکھی جا چکی ہے۔ امریکہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک کی جانب سے کی جانے والی درآمدات میں کمی کے باعث ہماری برآمدات میں 20 سے 30 فیصد کمی دیکھی جا رہی ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح 9.6 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ شرح نمو میں مزید کمی کی توقع ہے، جبکہ لاک ڈاون اور کرفیو برقرار رہنے کی صورت میں 10 لاکھ سے زائد دیہاڑی دار ورکرز کو عارضی بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑا سکتا ہے۔ ان کے مطابق، اسی طرح میں 90 لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ افراد غربت کی لکیر نیچے جا سکتے ہیں، جبکہ ملک میں ان کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کے جاری اخراجات میں 8 سے 12 فیصد جبکہ ترقیاتی اخراجات میں 10 سے 15 فیصد اضافے کی رفتار کی توقع ہے۔

اسی طرح پاکستان کے جاری خسارے میں 1800 ملین ڈالر سے زائد کی کمی کی مثبت پیشرفت کی بھی توقع ہے، اس سوال پر کہ حکومت کی جانب سے معاشی پیکج کے تحت دئیے جانے والا ریلیف پیکج کس حد تک بہتر ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ریلیف پیکج کا وفاقی بجٹ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ ٹیکس ریفنڈ کا پیسہ بہرحال تاجروں کو واپس ملنا ہی تھا۔ یہ انہی کا پیسہ تھا، اسی طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں سال کے پہلے 8 سے 9 ماہ میں کم پیسے خرچ کئے گئے ہیں جو اب زیادہ خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جبکہ گندم کی خریداری درحقیقت صوبے کریں گے اور اس سےوفاق کے بجٹ پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔

موجودہ صورتحال میں معیشت کو ان خطرات سے بچنے کے لئے صنعتوں کو غیر ضروری ٹیکسز سے بچایا جائے، برآمدی صنعتوں کے منافع اور ان کی لیکویڈیٹی کو بڑھایا جائے، عالمی منڈی میں تیل کی کم ہوتی قیمتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے توانائی کے ٹیرف کو کم کیا جائے، اور چھوٹی صنعتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، جبکہ تعمیراتی صنعت کو اچھا پیکج دے کر اسے تیز تر کیا جائے۔ اسی طرح سماجی شعبے میں زیادہ پیسہ خرچ کیا جائے، اور غریب ترین خاندانوں کی معاشی کفالت کو 3 ہزار سے بڑھا کر 7 ہزار تک کیا جائے تاکہ وہ بے روزگاری اور معاشی سرگرمیوں کی سست نمو کے اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔

ادھر ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی معیشت کو کرونا وائرس کی وبا سے پیدا شدہ صورتحال میں پانچ ارب ڈالر تک کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یو این سی ٹی اے ڈی کا مزید کہنا ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے دنیا کے 20 امیر ترین ممالک کی تنظیم جی 20 کی جانب سے اپنی معیشتوں کو کرونا وائرس کے خطرات سے بچانے کے لئے 2 کھرب ڈالرز تک کے مراعاتی پیکیج کا اعلان تو کیا ہے، لیکن اس کے ثمرات دنیا بھر کی 6 ارب کی آبادی کو پہنچانے کے لئے اس سے کہیں زیادہ بڑے اقدام کی ضرورت ہے۔

اس ادارے نے اپنی چار نکاتی سفارشات میں کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے میں بین الاقوامی یکجہتی دکھانے کے لئے 1 کھرب ڈالر کی لکیوویڈیٹی، یعنی فوری اخراجات کے لئے درپیش رقوم کو ممکن بنانا ہوگا، جبکہ دوسرا جن ممالک کے معاشی حالات انتہائی نازک ہیں۔ انہیں قرضوں کی ادائیگی میں ریلیف دینے کی ضرورت ہے، جس طرح جنگ عظیم دوئم کے بعد جرمنی کوقرضوں کی فراہمی میں ریلیف دیا گیا تھا، جس سے اس کے تقریبا آدھے قرضے معاف ہوگئے تھے۔

اسی طرح ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پزیر ممالک کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے امداد میں اضافی 500 ارب ڈالرز رکھنے ہونگے، جس سے ترقی پزیر ممالک صحت اور سماجی بہبود کے پروگراموں پر خرچ کر سکیں۔ اسی طرح ان ممالک کی مارکیٹوں سے سرمایہ کاری کے انخلا کو روکنے، کرنسی کی گرتی ہوئی شرح کو تھامنے کے لئے بھی مناسب اقدامات کرنے ہونگے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG