پاکستان میں ادویات کو رجسٹرڈ کرنے والے ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) نے صوبائی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ ڈاکٹری نسخوں میں کسی خاص کمپنی کی دوا تجویز کرنے کے بجائے دوا کا سالٹ یا فارمولا لکھنے کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ مریضوں کو کم قیمت ادویات میسر آ سکیں۔
ڈریپ کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو بھجوائے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کو یہ شکایت تھی کہ بعض ڈاکٹرز مخصوص کمپنیوں کی دوائیں تجویز کرتے ہیں جو مارکیٹ میں مہنگے داموں دستیاب ہیں حالاں کہ اسی فارمولے کے تحت تیار کردہ دیگر دوائیں سستے داموں مل سکتی ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے عمل سے ملک پر معاشی بوجھ پڑتا ہے اور مریض بھی مہنگے برینڈز کی خریداری پر معاشی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
ڈریپ کے مطابق یہ عمل میڈیکل اور ڈینٹل پریکٹشنرز کے ضابطۂ اخلاق کے بھی خلاف ہے۔
ڈریپ کی فارمیسی سروسز کے ڈائریکٹر عبدالراشد کے نام سے جاری ہونے والے اس ہدایت نامے میں تمام صوبائی حکومتوں اور زیرِ انتظام علاقوں کی انتظامیہ کو کہا گیا ہے کہ اس بارے میں ڈاکٹروں کی جانب سے جینرک پریسکرپشن یعنی دوا کا عام نام (جسے دوا کا فارمولا بھی کہا جاتا ہے) ملک اور مریضوں کے مفاد میں تجویز کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
'ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری اور ڈاکٹرز کے ساتھ گٹھ جوڑ کا خاتمہ ہوگا'
ہول سیل کیمسٹ کونسل آف پاکستان کے صدر عاطف حنیف بِلو اس فیصلے کو سراہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ڈاکٹرز کی جانب سے صرف دوا کا فارمولا تجویز کیا جائے تو اس سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کی جا سکتی ہے۔
عاطف بلو نے مزید کہا کہ اس عمل سے عوام کو سستی ادویات میسر آئیں گی۔ کیوں کہ ایک ہی فارمولے کی ادویات تیار کرنے والی کئی کمپنیاں ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر معدے کے درد کو دور کرنے کے لیے درکار سالٹ کو تیار کرنے والی ملک میں 50 سے زائد کمپنیاں ہیں۔ لیکن ملٹی نیشنل کمپنی اس دوا کو ساڑھے پانچ سو روپے میں فروخت کرتی ہے جب کہ مقامی کمپنیاں یہی دوا 70 سے 200 روپے تک فروخت کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات میں معیار کا خاص خیال رکھا جاتا ہو گا۔ لیکن ڈریپ جب مقامی کمپنیوں کو بھی دوا کی تیاری کا لائسنس اور منظوری دے رہی ہے تو اس سے پہلے باقاعدہ ڈرگ انسپکٹر فیکٹری وزٹ کرتا ہے۔ اس کی معلومات حاصل کی جاتی ہے اور لیب ٹیسٹ بھی ہوتا ہے تب جاکر اس کی منظوری ہوتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عاطف حنیف بلو کے مطابق اس عمل سے ڈاکٹرز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا گٹھ جوڑ ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ کیوں کہ کئی ڈاکٹرز ملٹی نیشنل کمپنیوں ہی کی تیار کردہ ادویات تجویز کرتے ہیں جس کا فائدہ انہیں مختلف مراعات دے کر نوازنے کی صورت میں ملتا ہے۔
'حقیقت میں ایسا ممکن نہیں، حل قیمتوں کے تعین میں پوشیدہ ہے'
لیکن پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر اقبال سومرو کے خیال میں یہ فیصلہ تو بہتر ہے لیکن حقیقت میں ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔
ڈاکٹر سومرو کا کہنا ہے کہ ایسا ہی فیصلہ سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی ہوا تھا لیکن یہ کارگر ثابت نہ ہوا۔ ان کے خیال میں اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کمپنیوں کو پابند کیا جانا ضروری ہے کہ وہ اپنی تیار کردہ دوا کا الگ نام رکھنے کے بجائے اس کا جینرک نام ہی رکھیں۔
اُن کے خیال میں ڈاکٹر کو اپنی تجویز کردہ ادویات کو تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر اقبال سومرو کے مطابق حکومت کی جانب سے جب ادویات کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے تو یہی وہ عمل ہے جہاں شفافیت کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے۔ زیادہ منافع کمانے کے لیے رشوت کی شکل میں مختلف مالی اور مادی فوائد دیے اور لیے جاتے ہیں۔
اُن کے بقول قیمتوں کے تعین کے عمل کو درست کرنے کی ضرورت ہے اگر کوئی ملٹی نیشنل کمپنی، مقامی کمپنی جیسی ہی دوا تیار کررہی ہے تو ان تمام کمپنیوں کی ادویات کی قیمتوں میں 10 سے 15 فی صد سے زیادہ کا فرق نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایسا کرلیا جائے تو برینڈ کے نام سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اس سے ڈاکٹرز کی جانب سے مبینہ طور پر فوائد حاصل کرنے کو بھی کسی حد تک روکا جاسکے گا۔
'ڈریپ اپنا کام کرنے کے بجائے دوسرے کاموں میں مشغول ہے'
دوسری جانب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اس فیصلے کو وقتی اور حکمت سے عاری قرار دے رہی ہے۔ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ڈاکٹرز کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار صرف پاکستان میڈیکل کمیشن کو حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر تھوڑی دیر کے لیے اس نوٹی فکیشن کا مقصد ڈاکٹروں کی کرپشن کی روک تھام ہی کو تصور کرلیا جائے تو بھی اس عمل سے ملک کی گلی گلی میں کھلے میڈیکل اسٹورز کے پاس یہ اختیار آجائے گا کہ وہ کون سی دوا مریض کو فراہم کرتا ہے۔
اُن کے بقول یوں فارما کمپنیوں اور میڈیکل اسٹورز مالکان کے گٹھ جوڑ سے کرپشن اور رشوت ستانی کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس طرح کمپنیوں کو نوازنے میں چند ایک ڈاکٹرز تو ملوث ہوسکتے ہیں لیکن ڈاکٹرز کی اکثریت ایسا نہیں کرتی۔
ڈاکٹر قیصر سجاد کا بھی کہنا ہے کہ ملک میں ایک ہی قسم کے فارمولے کی دوا تیار کرنے والی مختلف کمپنیوں کا ریٹ یکساں مقرر کرنا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ اس کے بعد بات ہی ختم ہوجاتی ہے۔ نہ ڈاکٹرز کو الزام آسکے گا اور نہ ہی میڈیکل اسٹورز والے اس میں زیادہ منافع کما سکیں گے۔ اور یہی کام ڈریپ کا اصل مینڈیٹ ہے۔
اُن کے بقول ڈریپ اپنا کام ٹھیک طریقے سے کرنہیں پارہا اور دوسری جانب وہ ڈاکٹرز کو ہدایات جاری کرنے کے لیے انتظامیہ کو خطوط لکھ رہا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں کرونا ویکسین کی 150 فی صد زیادہ قیمت پر فروخت سنجیدہ معاملہ ہے: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل'اس فیصلے کے تحت ڈریپ کو مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا'
ڈاکٹر قیصر سجاد نے مزید کہا کہ اس طرح کے فیصلوں کا مقصد خاص گروہوں کو فوائد پہنچانا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق یہ خط جاری کرنے والے ڈریپ کی فارمیسی سروسز کے ڈائریکٹر عبدالراشد پاکستان فارما ایسوسی ایشن کے آئندہ انتخابات میں نائب صدر کے عہدے کے لیے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس نوٹی فکیشن کے ذریعے اتھارٹی کو مفادات کے ٹکراؤ میں استعمال کیا گیا۔
اس معاملے پر مؤقف حاصل کرنے کے لیے ڈریپ کی انتظامیہ اور چیف ایگزیکٹو آفیسر عاصم رؤف سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب اب تک سے کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔