پاکستان کے صوبہ سندھ میں گزشتہ ایک سال کے دوران کتوں کے کاٹنے کے 92 ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ بھارت اور چین سے اینٹی ریبیز ویکسین کی درآمدات بند ہونے سے صوبے میں بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔
حال ہی میں سندھ کے شہر لاڑکانہ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں کتے کے کاٹنے سے ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں ہلاک ہو گیا تھا۔
یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ بچے کی موت کتے کے کاٹنے کی ویکسین نہ ملنے کے باعث ہوئی ہے۔
بچے کی موت پر صوبائی حکومت پر تنقید کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت بنیادی ادویات کی فراہمی میں بھی ناکام نظر آتی ہے۔
صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
صوبائی حکومت کا مؤقف تھا کہ بچے کو انجیکشن نہ لگانے کی وجہ دوا کی کمی نہیں بلکہ تاخیر سے علاج کرنا تھا۔
حکام کے مطابق، بچے کو کتے نے تقریباً ایک ماہ قبل کاٹا تھا اور وقت پر علاج نہ ہونے کے باعث مرض بگڑ کر ہائیڈرو فوبیا میں تبدیل ہو چکا تھا، جس پر اینٹی ریبیز ویکیسن اثر نہیں کرتی۔
سرکاری اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، سندھ میں گزشتہ ایک سال میں کتے کے کاٹنے کے 92 ہزار 159 واقعات ہوئے ہیں جن میں سے کم از کم 12 افراد کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔
اسی طرز کے 69 ہزار واقعات گزشتہ سال بھی رپورٹ ہوئے تھے۔
حکّام کے مطابق، ان واقعات میں سب سے زیادہ بچے متاثر ہوئے ہیں جو آوارہ کتوں کا با آسانی شکار بن جاتے ہیں۔ ان واقعات میں سے اکثر دیہی علاقوں میں پیش آئے ہیں۔
سندھ کے وزیرِ اطلاعات سعید غنی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ کتے کے کاٹنے کی ویکسین کی کمی ضرور ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ کوئی بحرانی کیفیت نہیں ہے۔
سعید غنی کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین سے اینٹی ریبیز ویکسینز کی درآمد بند ہونے سے صوبے میں ان ادویات کی کمی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود صوبے کے تمام سرکاری اسپتالوں میں ادویات موجود ہیں۔
حکّام کے مطابق، اینٹی ریبیز ویکسین کی بھارت میں مانگ بڑھنے کے پیشِ نظر بھارتی کمپنی نے رواں سال اپریل میں اس دوا کی برآمد بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
دوسری جانب چین میں یہ دوا تیار کرنے والی کمپنی بند ہونے سے وہاں سے بھی اینٹی ریبیز ویکسین کی درآمد تعطل کا شکار ہے۔
چین اور بھارت سے اینٹی ریبیز ویکسین کی درآمد رکنے سے پاکستان میں دوا کی قیمت میں اضافے کے ساتھ اس کی رسد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے جب کہ آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات میں بتدریج اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟
ماہرین کے خیال میں آوارہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات کئی ترقی پذیر ملکوں میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن، ایسے بہت سے ممالک بھی ہیں جنہوں نے ایسے واقعات کا بہتر حکمتِ عملی سے خاتمہ کیا ہے۔
سری لنکا اور فلپائن کی مثالیں سب کے سامنے ہیں جہاں آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کیا گیا ہے، جب کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک کے لیے معاشرے میں شعور بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
صحت کی عالمی تنظیم کی ریبیز سے متعلق کمیٹی میں شامل ماہر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا ہے کہ کتے کے کاٹنے کے بعد لگنے والی دوا کی قلت صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں یہ عدم دستیاب ہونے سے بحرانی کیفیت در پیش ہے۔
ان کے مطابق، ان واقعات سے نمٹنے کے لیے کتوں کی ویکسینیشن کرنا ضروری ہے۔ لیکن، یہ ایک مہنگا اور مشکل کام ہے جس کے لیے کثیر سرمائے، وقت اور تربیت کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا ہے کہ مختلف اداروں کے اشتراک سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آوارہ کتوں سے نمٹنے کا ایک پروگرام کامیابی سے جاری ہے جس میں اب تک 20 ہزار سے زائد کتوں کی ویکسینیشن کی جا چکی ہے جس کے بعد وہ خطرناک نہیں رہتے۔ لیکن، اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آوارہ کتوں کی تعداد میں وقت کے ساتھ بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کے کتوں کے کاٹنے کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ ملک بھر میں آوارہ کتوں کی تعداد 25 لاکھ کے قریب ہے اور ہر سال تقریباً 10 لاکھ کتے کے کاٹنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں، جن کے لیے کثیر تعداد میں اینٹی ریبیز ویکسین کی ضرورت ہے۔
چین اور بھارت کے علاوہ اسلام آباد میں قائم نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ بھی کتے کے کاٹنے کی دوا تیار کرتا ہے۔ لیکن، ابھی یہ ادارہ اس دوا کی طلب کو مکمل پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔