چین میں ایک بلدیاتی حکومت نے پالتو کتوں کے مالکوں سے کہا ہے کہ وہ خود اپنے کتوں سے چھٹکارہ حاصل کر لیں یا پھر حکومت کے اہلکار ان کے گھروں میں جا کر انہیں موقعے پر ہی ختم کر دیں گے۔
چین میں کتوں کی ملکیت کی سختی سے نگرانی کی جاتی ہے مگر وہاں کے قوانین کے لحاظ سے مشرقی شہر جینان کے ڈایانگ نیو ڈسٹرکٹ کی جانب سے اس ہفتے جاری کیا جانے والا حکم نامہ انتہائی سخت ہے۔
بلدیاتی حکومتوں نے اس سے قبل آوارہ جانوروں کے خاتمے کی اقدامات کیے ہیں مگر ڈایانگ کے حکم نامے میں ان کتوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو اندراج شدہ ہیں اور جنہیں ویکسین دی گئی ہے۔
کتوں کے خاتمے کی مہم عموماً ریبیز یعنی کتے کے کاٹنے سے ہونے والی باولے پن کی وبا پھیلنے کے بعد شروع کی جاتی ہے۔
ہر سال چین میں 2,000 افراد اس بیماری سے ہلاک ہوتے ہیں مگر تازہ حکم نامے میں صرف ماحولیاتی حفظان صحت اور سب کی ’’عمومی زندگیوں‘‘ کے تحفظ کا حوالہ دیا گیا ہے۔
بلدیاتی حکومت سے رابطے کی کوشش کی گئی مگر وہاں اس مسئلے پر بات کے لیے کوئی موجود نہیں تھا۔ تاہم ڈایانگ گاؤں کی کمیٹی کے ایک رکن نے مقامی ٹیلی وژن سے انٹرویو میں کہا کہ یہ اس علاقے کے ایک ہزار سے زائد رہائشیوں کی منشا ہے۔
’’کتے ہمیشہ گندگی پھیلاتے ہیں اور لوگوں کو پریشان کرتے ہیں۔ بہت لوگ شکایت کر رہے تھے اس لیے ہم نے تنازعے سے بچنے کے لیے حکم نامہ جاری کیا۔‘‘
اس حکم نامے سے چین کے قانونی نظام میں موجود کمزوریوں خصوصاً پولیس کے اختیارات اور لوگوں کی ذاتی ملکیت کی تحفظ کے معاملے میں کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عوامی مقامات پر پالتو جانوروں کو باندھ کر رکھنے اور ان کی گندگی صاف کرنے کے لیے کوئی ضوابط موجود نہیں۔
چین کتوں سے محبت کرنے والوں اور انہیں عوام کے لیے خطرہ سمجھنے والوں کے درمیان بٹا ہوا ہے۔
چین کے انقلاب کی ابتدائی دہائیوں کے دوران کتوں کو پالنا غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ کمیونسٹ رہنماؤں کا خیال تھا کہ ایسا کرنا دکھاوا اور کمیاب وسائل کا ضیاع ہے۔
گزشتہ 20 سالوں کے دوران شہری علاقوں میں بڑے کتوں پر پابندی کے باوجود چین میں پالتو کتے رکھنے کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ چین میں جانوروں کے حقوق کے لیے ایک تحریک نے بھی جنم لیا ہے۔ کتوں سے محبت رکھنے والے افراد ان کو گوشت کی منڈیوں میں فروخت کے لیے لے جانے والے ٹرکوں کے آگے کھڑے ہو کر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔