|
یہ کہانی ہے وسطی پنجاب کے ضلع منڈی بہاءالدین کے گاؤں کھٹیالہ شیخاں کی، جہاں کے تین دوست مستقبل کے سنہرے خواب دیکھتے ہوئے یورپ جانے کی خواہش میں گاؤں سے اکٹھے نکلتے ہیں۔
پھر ان میں سے دو دوست کھلے سمندر میں انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ان میں سے تیسرا دوست زندہ بچ کر واپس تو آگیا ہے۔ لیکن اس کے لیے زندگی اب پہلے جیسی نہیں رہی۔
شعیب ظفر انصاری اپنے دوستوں کے ساتھ اس کشتی میں سوار تھے جو دو جنوری کو افریقی ملک موریطانیہ سے اسپین جانے کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ لیکن اسمگلرز نے کشتی کو پانچ جنوری کو سمندر میں روک کر سواروں پر تشدد شروع کردیا تھا جس کا سلسلہ 15 جنوری تک جاری رہا۔
اس دوران کشتی میں سوار 86 میں سے 50 افراد لقمہ اجل بن گئے جن میں رپورٹس کے مطابق 44 پاکستانی بھی شامل تھے۔
جس کشتی میں یہ اموات ہوئیں اسے ماہی گیروں نے ریسکیو کیا اور مراکش کی نیوی کے زیرِ انتظام ایک قریبی جزیرے پر لے گئے جہاں زخمیوں کا علاج کیا گیا۔
شعیب کا پورا جسم زخموں سے چور چور ہے اور وہ کشتی پر پیش آنے والے واقعات پر بات کرتے ہیں تو رو پڑتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’میرا زندہ بچنا ایک معجزہ ہی ہے جب انسانی اسمگلر زکشتی میں ہتھوڑوں اور آہنی راڈوں سے مارپیٹ کر رہے ہوتے تھے تو ہرلمحہ یہی لگتا تھا کہ اگلی باری میری ہی ہوگی اور موت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔‘‘
شعیب کی عمر 35 سال ہے اور وہ تین بچوں کے باپ ہیں۔ ان کے باقی دونوں دوست غیرشادی شدہ تھے۔
شعیب نے بتایا کہ ان کی گاؤں میں ویلڈنگ کی چھوٹی سی دکان تھی جہاں سے ہونے والی آمدن سے گزر بسر ہورہی تھی۔ لیکن دل میں خواہش تھی کہ ملک سے باہر جاکر محنت مزدوری کروں گا تو بچوں کی زندگیوں میں آسانیاں آجائیں گی۔ وہ اچھی تعلیم حاصل کرلیں گے اور اگر ویلڈر ہی رہا تو بچے انہی گلیوں میں برے حال میں زندگی گزاریں گے۔
وہ بتاتے ہیں کہ"ایجنٹ نے پاکستان سے موریطانیہ تک بھجوانے کے 15 لاکھ روپے مانگے تھے۔ ہم نے سات لاکھ روپے میں گھر بیچ دیا۔ سات لاکھ روپے خالہ زاد بھائیوں سے قرضہ لیا جب کہ چار لاکھ روپے کا زیور وغیرہ بیچا۔ یوں 15لاکھ روپے ایجنٹ کو دے کر تین لاکھ روپے سفر کے اخراجات کے طور پر اپنے پاس رکھ لیے اور موریطانیہ روانہ ہوگئے۔"
شعیب کہتے ہیں کہ وہ اس سے آگے یورپ جانا چاہتا تھے۔ لیکن جیب میں پیسے نہیں تھے۔ موریطانیہ پہنچ کر ایجنٹ نے مزید چھ ہزار یوروز کا مطالبہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ یہیں موریطانیہ میں رک جاتے ہیں اور یہاں محنت مزدوری کرلیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ میرے ساتھ جانے والے دوستوں کو جب علم ہوا کہ میرے پاس مزید رقم موجود نہیں تو انہوں نے ایجنٹ کو میری طرف سے گارنٹی دے دی کہ جب یہ اسپین پہنچ جائےگا تو آپ کو چھ ہزار یوروز مل جائیں گے۔ یوں میں چاہتے نہ چاہتے اس کشتی میں سوار ہوگیا۔
’’دو جنوری کو جب ہم کشتی میں بیٹھے تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ چار سے پانچ دن کا راستہ ہے۔ تین دن بعد پانچ جنوری کو کشتی اچانک رک گئی جس کے بعد کبھی یہ کہا جاتا کہ اس کے انجن میں خرابی پیدا ہوگئی ہے اور کبھی کہا جاتا کہ پیٹرول ختم ہوگیا ہے۔ لیکن اگلے ہی روز کشتی کے عملے نے ہم سے کھانے پینے کا سامان چھین لیا۔ کپڑے اور دیگر سامان اٹھا اٹھا کر کھلے سمندر میں پھینکنے لگے اور جو لوگ مزاحمت کرتے ان کو ہتھوڑوں اور آہنی راڈوں سے تشدد کا نشانہ بناتے۔‘‘
شعیب کہتے ہیں کہ انسانی اسمگلروں کی طرف سے مارپیٹ کا سلسلہ 10 دن تک جاری رہا۔ وہ ظالم اور سفاک انسان تھے اور اس قدر بےدردی سے تشدد کرتے کہ چیخوں سے روح کانپ اٹھتی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ اسمگلرز کے تشدد سے کشتی کا کوئی سوار مر جاتا تو وہ دوسروں کو حکم دیتے کہ اس کی لاش سمندر میں پھینک دو۔ اگر کوئی انکار کرتا تو وہ اس پر بھی تشدد شروع کردیتے۔
’’میرا دوست علی حسن اس مارپیٹ سے بہت دل برداشتہ ہو چکا تھا۔ وہ بہت روتا تھا کہ ہمیں تو یورپ جانا تھا اور کہاں پھنس گئے ہیں۔ ایک روز جب ہتھوڑوں اور آہنی ہتھیاروں سے لیس انسانی اسمگلر علی حسن کو مارپیٹ کرنے کے لیے اس کی طرف بڑھے تو اس نے ڈرکے مارے سمندر میں چھلانگ لگا دی اور پھر باہر نہ آسکا۔ یہ سب میرے سامنے ہوا اور آج بھی جب میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو مجھے وہی منظر دکھائی دیتا ہے اور میں ڈر کے مارے آنکھیں کھول لیتا ہوں۔‘‘
شعیب نے بتایا کہ ان پر اور ان کے دوسرے دوست احتشام پر تشدد کیا گیا جس سے وہ تو بے ہوش ہوگئے۔ لیکن احتشام کی موت واقع ہوگئی اور جب انہیں ہوش آیا تو معلوم ہوا کہ اسے بھی سمندر میں پھینک دیا گیا ہے۔
SEE ALSO: مراکش کشتی حادثہ: 'ڈنکی لگانے کا دوبارہ کہا جائے تو ملک میں رہنے کو ترجیح دوں گا'لاشوں کی واپسی
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مطابق مراکش کے قریب کھلے سمندر میں کشتی میں مارے جانے والے 44 پاکستانیوں میں سے 13 کی لاشیں وطن واپس لائی جارہی ہے جب کہ چار کی تدفین ان کے آبائی دیہات میں کردی گئی ہے۔ باقی لاشوں کی تدفین کا عمل دو سے تین روز میں مکمل ہو جائےگا۔
منڈی بہاءالدین کے گاؤں مسیت والی میں حماد شبیر اور کوٹلی قاضی میں سجاد علی کی تدفین کی گئی جب کہ گجرات کے گاؤں ڈولا میں سفیان علی اور حاجی والا میں قیصراقبال کو نماز جنازہ کے بعد سپردخاک کردیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق جن 13 لاشوں کی شناخت کے بعد فہرست جاری کی گئی یہ سب کشتی میں سے ملی تھیں جب کہ جن لوگوں کو اسمگلرز نےقتل کرکے سمندرمیں پھینک دیا تھا ان میں کسی کی لاش نہیں مل سکی۔
لاشوں کی شناخت کے لیے نادرا سے معاونت لی گئی ہے۔
مراکش میں پاکستانی سفارت خانے کے مطابق فنگر پرنٹس اور تصاویر نادرا کو بھجوائی گئیں تھیں۔ نادرا کی جانب سے تصدیقی عمل کے مکمل ہونے کے بعد فہرستیں مرتب کی گئی ہیں۔
’دوسرے بھانجے کی لاش کے منتظر ہیں‘
گجرات کی تحصیل لالہ موسیٰ کے گاؤں ڈولا کے رہائشی زمین دار چوہدری احسن کے دو بھانجے بھی مراکش کے نزدیک ڈوبنے والی کشتی میں سوار تھے۔ہلاک ہونے والے یہ دونوں نوجوان آپس میں خالہ زاد کزن تھے۔
ان میں سے سفیان علی کو آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا ہے جب کہ دوسرے لڑکے عاطف شہزاد کی لاش کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ سمندر میں پھینکی گئی تھی جس وجہ سے اس کی تلاش بظاہر اب ممکن نہیں رہی۔
چوہدری احسن کہتے ہیں کہ خدا کسی کو ایسا دن نہ دکھائے جیسا ہماری فیملی پر آیا ہے جس خاندان میں دو جوان لڑکوں کی موت ہوجائے وہاں قیامت ہی تو آجاتی ہے۔
ان کے بقول سفیان علی کے چار بچے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ ہمارے پاپا کے ساتھ کیا ہوا۔ کس نے ان کو مارا۔ ہم انہیں کیا جواب دیں؟
"ہم وزیرِ اعظم سے اپیل کرتے ہیں کہ جن لڑکوں کی لاشیں سمندر سے نہیں نکالی گئیں۔ ان لاشوں کی تلاش کے لیے پاکستان سے غوطہ خوروں کی ٹیم مراکش روانہ کی جائے تاکہ لاشیں ملنے پر ورثا کو سکون مل سکے۔ ورنہ ہمارے دن رات روتے ہی گزریں گے۔"
’یہاں گزر بسر ہورہی تھی لیکن...‘
کشتی میں دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ گجرات کے دیہات حاجی والہ اور کڑیاں والہ کے دو ایسے افراد بھی سوار تھے جوکہ آپس میں سالا بہنوئی تھے۔ یہ دونوں زندہ نہ بچ سکے اور انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں مارے گئے۔
قیصر اقبال کی نماز جنازہ آبائی قبرستان میں ادا کردی گئی جب کہ ظہیر الدین بابر کی لاش تاحال وطن واپس نہیں آسکی جس پر ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کردی گئی ہے۔
قیصراقبال کی عینکوں کی دکان تھی جب کہ ظہیر الدین بابر کپڑے فروخت کرتے تھے۔
SEE ALSO: یونان کشتی حادثہ: 'لوگ پھر بیٹوں کو سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کرنے پر تیار ہو جائیں گے'ان کے ایک رشتہ دار حاجی ثنا اللہ نے بتایا کہ قیصر اور ظہیرالدین بابر یہاں گاؤں میں گزر بسر تو کررہے تھے۔ لیکن ان کا خواب تھا کہ یورپ جاکر گھر کے حالات بدلیں۔ اس دوران وہ اچانک ایک ایجنٹ کے ہتھے چڑھ گئے جس نے دونوں سالہ بہنوئی کو اپنی باتوں کے جال میں پھنسا لیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’’ایجنٹ نے یورپ پہنچانے کے لیے دونوں سے 28، 28 لاکھ روپے لیے تھے۔ لیکن جب وہ موریطانیہ پہنچے تو کہا گیا کہ اپنے گھروں سے مزید 20،20 لاکھ منگواؤ ورنہ آپ کو منزل پر نہیں پہنچائیں گے۔ ایجنٹ بلیک میلر ہوتے ہیں جوکہ لوگوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لڑکوں نے اپنے گھر فون کیے جنہوں نے لوگوں سے ادھار پکڑ کر اور رہی سہی جمع پونجی بیچ کر مزید 20، 20 لاکھ بھجوائے تھے۔‘‘
زندہ بچ جانے والوں کی واپسی
ایف آئی اے حکام کے مطابق مراکش کشتی حادثے میں زندہ بچنے والے 22 پاکستانی وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔
واپس آنے والے کا تعلق شیخوپورہ، سیالکوٹ، منڈی بہاءالدین، گجرات، گوجرانوالہ اور جہلم سے ہے جب کہ ان کی عمریں 21 سے 41 سال کے درمیان ہیں۔
ابتدائی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ غیر قانونی طریقے سے جانے والے مسافروں نے سینیگال اور موریطانیہ کے راستے اسپین جانے کی کوشش کی۔ مسافروں نے ایجنٹوں سے اسپین جانے کے لیے لاکھوں روپے میں معاملات طے کیے اور ایجنٹوں نے شہریوں کو وزٹ ویزے پر سینیگال بھجوایا۔
حکام کے مطابق جن ایجنٹوں کی نشان دہی ہوئی ہے ان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کردی گئی ہے اور مقدمات درج کرکے ایجنٹوں کی گرفتاریاں کی جارہی ہیں۔
ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ شہری بیرون ملک جانے کے لیے ہمیشہ متعلقہ ملک کے سفارت خانے سے رابطہ کریں۔ اپنے ذاتی دستاویزات غیر متعلقہ افراد کے حوالے نہ کریں اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کی نشاندہی کے لیے ایف آئی اے کے قریبی سرکل سے رابطہ کریں۔
SEE ALSO: پاکستان سے 'ڈنکی' لگا کر یورپ پہنچانے کا نیٹ ورک کیسے چلایا جا رہا ہے؟ایک گاؤں کے پانچ افراد کی موت
گجرات کے گاؤں جوڑا کرناناں کے پانچ لڑکے اکٹھے یورپ جانے کے سفر پر روانہ ہوئے تھے جن میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکا۔ 25 سالہ عمر فاروق بھی ان میں شامل ہے۔
عمر فاروق کے ایک رشتہ دار ماجد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ ایک پرجوش نوجوان تھا جس کا کہنا تھا کہ گاؤں میں رہے تو زندگی ایسے ہی بے مقصد گزر جائے گی۔ بہتر ہے کہ سب کچھ داؤ پر لگا کرایک بار یورپ کا رسک لیا جائے۔
وہ بتاتے ہیں کہ عمر فاروق کے سامنے کشتی الٹنے کے واقعات کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتا تھا کہ چھ ماہ بعد اگر کوئی کشتی الٹتی ہے تو کیا ہوا؟ 10 کشتیاں یورپ پہنچ بھی تو جاتی ہیں۔
’’عمر فاروق نے اپنی آبائی زمین بیچ کر ایجنٹ کو پیسے ادا کیے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ جب وہ یورپ جاکر یورو کمائے گا تو سب سے پہلے اپنی زمینیں واپس خرید لے گا۔‘‘
منڈی بہاءالدین کے گاؤں کھٹیالہ شیخاں کے شعیب ظفر انصاری بدقسمتی سے یورپ تو نہیں پہنچ سکے۔ لیکن گھر کی فروخت کے بعد وہ اپنے ہی گاؤں میں 15 ہزار روپے کے کرائے کے مکان میں آگئے ہیں۔
شعیب نم آنکھوں کے ساتھ کہتے ہیں کہ ڈنکی لگانے کے بعد زندگی پہلے سے بدتر ہوگئی ہے۔ پہلے کسی کا قرض واپس نہیں کرنا تھا۔ ذاتی گھر تھا۔ انہوں نے جن لوگوں سے قرض لیا تھا وہ رقم واپسی کا تقاضا کرنے لگے ہیں اور کرائے کا مکان کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔
اپنے تجربات کے بعد اب وہ نوجوانوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ "اپنا سب کچھ داؤپر لگا کر ڈنکی لگانے کا رسک نہ لیا کریں۔ ورنہ آپ کی اور آپ کے گھر والوں کی زندگی جہنم بن جائے گی۔"