کراچی پولیس نے ساتھی نرس کی شکایت پر مسیحی خاتون نرس کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ حکام کے مطابق کیس پر تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
اسٹاف نرس صبا کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کی تفصیلات کے مطابق سوبھراج میٹرنٹی اسپتال میں تعینات سینئر نرس نے ایک بچے کی پیدائش کے موقع پر دورانِ گفتگو اپنی ساتھی نرسز کے ساتھ توہینِ مذہب کے کئی جملے کہے۔ جس پر اس نرس کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295-سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے جملے ادا کیے جانے کے بعد نرس پر اس کی ساتھی نرسز اور وہاں موجود دیگر خواتین نے تشدد کیا۔ اور اسے تشدد کرتے ہوئے اسپتال کی تیسری منزل سے نیچے لایا گیا جس کے بعد اسے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔
اس موقع پر بعض افراد مذکورہ نرس کو نہ مارنے کی بھی تلقین کر رہے تھے۔ اور اسے تشدد سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسیحی نرس پر تشدد کرنے والی نرسز اسے ایک سادہ کاغذ پر معافی نامہ لکھنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ جب کہ مذکورہ نرس کا کہنا تھا کہ اس نے ایسے توہین آمیز الفاظ ادا نہیں کیے۔
واقعے کی اطلاع ملنے پر پولیس فوری طور پر اسپتال پہنچی۔ جہاں سے ملزمہ کو فوری طور پر تھانے منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازاں پولیس نے مسیحی نرس کو رہا کر دیا تھا۔
مسیحی نرس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ اس سے قبل سول اسپتال کراچی میں بھی تعینات رہی ہیں۔ جب کہ وہ عیسائیوں کی مقدس کتاب ‘انجیل’ کے گیت بھی گاتی ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی کافی فعال ہیں۔
دوسری جانب سوبھراج اسپتال میں تعینات ایک اور اسٹاف نرس کوثر رحمٰن کے بیان کے مطابق مسیحی کے ساتھ انتہائی تذلیل آمیز سلوک کیا گیا۔ ان کے بقول اس پر حملے کے دوران اس کے کپڑے بھی پھٹ گئے تھے۔
کوثر رحمٰن کا کہنا تھا کہ وہ مسیحی نرس کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔ اسے ایسا نہیں پایا کہ وہ کسی بھی مذہبی شخصیت کے بارے میں گستاخانہ بات کہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا مزید کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں یہ تو دیکھا جا سکتا ہے کہ اس نرس کو مارا پیٹا اور اسے زدو کوب کیا گیا۔ جس کے شواہد موجود ہیں۔ لیکن توہین مذہب کی گفتگو کے بارے میں اس پر عائد الزامات کے بارے میں کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سوبھراج میٹرنٹی ہوم بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زیر انتظام سرکاری اسپتال ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کے اعلیٰ حکام نے اس واقعے پر وائس آف امریکہ کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ مسیحی خاتون نرس کو ذاتی جھگڑے کا نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل جھگڑا ڈیوٹی روسٹر میں تبدیلی کے معاملے پر ہوا۔ اس دوران دوسری نرس نے اس پر توہینِ مذہب کا سنگین الزام عائد کیا جس کے بعد ان کے بقول اسپتال میں صورتِ حال مزید گھمبیر ہو گئی اور بات تشدد تک جا پہنچی۔
اس بارے میں پولیس کا مؤقف جاننے کی متعدد بار کوشش کی گئی تاہم پولیس حکام نے اس حوالے سے کسی قسم کا بیان جاری نہیں کیا اور نہ ہی وہ مؤقف دینے پر تیار ہوئے۔
ادھر غیر سرکاری تنظیم (ین جی او) انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی مسیحی نرس پر تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ایک بیان میں کمیشن کا کہنا تھا کہ اس قسم کے الزامات عائد کر کے لوگوں کو تشدد پر اکسایا جا سکتا ہے۔
کمیشن نے مطالبہ کیاہے کہ ریاست مسیحی نرس کی زندگی کا تحفظ اور آزادی کو یقینی بنائے جس کی وہ بطور شہری مستحق ہے۔
توہینِ مذہب کا مقدمہ درج ہونے کی بنا پر قانون کے مطابق اس کیس کی تفتیش ایس ایس پی انویسٹی گیشن ضلع جنوبی خود کریں گے۔
اب تک پولیس نے اس مقدمے میں کوئی گرفتاری نہیں کی اور نہ ہی سینئر نرس کو زدو کوب کرنے والے والوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی گئی ہے۔
پاکستان پینل کوڈ میں توہینِ مذہب کے حوالے سے جرائم سے متعلق پورا باب موجود ہے جس میں مذہبی مقدس مقامات، عبادت کے مقامات یا خاص مذہبی گروہ کی توہین کو جرم قرار دینے کے ساتھ ساتھ آسمانی کتابوں، مذہبی جذبات کو جان بوجھ کر ٹھیس پہنچانے اور پیغمبروں کی توہین کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی باب میں احمدی افراد کا خود کو مسلمان کہنے یا اپنے مذہب کی ترویج و تبلیغ کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ سندھ میں گزشتہ چند برس کے دوران توہینِ مذہب کے کیسز میں قدرے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
سن 2017 میں توہینِ مذاہب کے صوبے بھر میں 40 جب کہ 2018 میں 36 کیسز رجسٹرڈ ہوئے تھے۔
اسی طرح 2019 میں 62 جب کہ 2020 میں بھی توہین مذاہب کے 50 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔
صوبائی دارالحکومت کراچی میں 2020 میں اس طرح کا کوئی کیس رجسٹرڈ نہیں ہوا۔ جب کہ 2019 میں شہر میں اس نوعیت کے 11 کیسز رجسٹرڈ ہوئے تھے۔