پاکستان میں سوشل میڈیا پر توہین مذہب سے متعلق مواد کی تشہیر کے مقدمے میں اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے تین ملزمان کو سزائے موت سنائی ہے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے فیصلے میں زیرِ حراست تین ملزمان عبد الوحید، رانا نعمان رفاقت اور ناصر احمد کو سزائے موت سنائی۔ جب کہ ایک ملزم پروفیسر انوار احمد کو 10 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
عدالت نے چار مفرور ملزمان طیب سردار، راؤ قیصر شہزاد، فراز پرویز اور پرویز اقبال کے ناقابلِ ضمانت دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
عدالت نے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ اس مقدمے میں زیرِ حراست چاروں ملزمان پر الزامات درست ثابت ہوئے۔
یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر 19 مارچ 2017 کو حافظ احتشام احمد کی مدعیت میں ایف آئی اے اسلام آباد میں درج کیا گیا تھا۔ اس وقت کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے یہ مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔
مقدمے میں ضابطۂ فوجداری کے تحت توہینِ رسالت، توہین صحابہ، توہین قرآن اور توہین مذہب سے متعلق تمام دفعات شامل تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ اور انسداد سائبر کرائم ایکٹ کی متعلقہ دفعات بھی لگائی گئی تھیں۔
یہ مقدمہ گزشتہ چار سال سے انسدادِ دہشت گردی عدالت اسلام آباد میں زیرِ سماعت تھا۔
ملزمان پر الزامات کیا تھے؟
اس کیس میں سزائے موت پانے والے تین ملزمان میں سے جھنگ سے تعلق رکھنے والے ناصر احمد سلطانی کے حوالے سے مقدمہ دائر کیا گیا تھا کہ اس نے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اس بارے میں مختلف ویڈیوز بھی اپ لوڈ کی تھیں۔
دو ملزمان عبدالوحید اور رانا نعمان رفاقت کا تعلق کراچی سے ہے اور ان پر توہینِ مذہب سے متعلق مواد سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا الزام تھا۔
چوتھے ملزم پروفیسر انوار اسلام آباد کے ایک کالج میں لیکچرر تھے اور ان پر کلاس میں دوران لیکچر مذہب اور مذہبی شخصیات کے بارے میں نامناسب کلمات کہنے کے الزامات تھے۔ پروفیسر انوار نے عدالت میں جرم کا اعتراف بھی کیا تھا۔
دیگر مفرور چار ملزمان اب تک غائب ہیں اور ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزمان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے مقدمے کی سماعت مکمل ہونے پر 15 دسمبر 2020 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ یہ مقدمہ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل اسلام آباد میں درج ہوا تھا۔
اس کیس کے مدعی حافظ احتشام کی جانب سے حافظ ملک مظہر جاوید ایڈووکیٹ، ایف آئی اے کی جانب سے چوہدری محمد شفقات ایڈووکیٹ جب کہ ملزمان کی جانب سے اسد جمال اور سید حسن عباس ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوتے رہے۔
سماعت کے بعد حافظ ملک مظہر جاوید ایڈوکیٹ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔ یہ سب ملزمان توہین مذہب میں ملوث تھے اور ان کو سزا سنائی گئی ہے۔
امریکہ کی مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ
رواں سال جون میں امریکہ کے مذہبی آزادی سے متعلق کمیشن کی رپورٹ برائے 2020 میں نشان دہی کی گئی کہ پاکستان بھر میں مذہبی آزادی کی صورتِ حال مسلسل ابتر ہوتی جا رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ توہینِ مذہب اور احمدی کمیونٹی مخالف قوانین کا منظم نفاذ اور مذہبی اقلیتوں بشمول ہندو، مسیحی اور سکھوں کی جبراً تبدیلیٔ مذہب کو روکنے میں حکام کی ناکامی نے مذہبی اور عقائد کی آزادی کو محدود کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 80 افراد توہینِ مذہب کے الزامات کے باعث قید میں ہیں جس میں سے نصف عمر قید یا سزائے موت کا سامنا کر رہے ہیں۔
حال ہی میں امریکی محکمۂ خارجہ کے سفیر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی سیموئیل ڈی براؤن بیک نے ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ دنیا بھر میں توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار افراد میں سے نصف پاکستان میں قید ہیں۔
پاکستانی دفترِ خارجہ نے امریکہ کی طرف سے عائد ان الزامات کو مسترد کیا تھا اور اس کو 'من گھڑت اور مخصوص فیصلہ' قرار دیا تھا۔
دفترِ خارجہ نے بیان میں بھارت کو بلیک لسٹ سے باہر رکھنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس فہرست میں رکھنا حقیقت کے بالکل برعکس ہے اور اس عمل کے مصدقہ ہونے پر شبہات پیدا ہوئے ہیں۔
ترجمان نے الزام عائد کیا تھا کہ بھارت میں ریاستی پشت پناہی میں مسلم اقلیت کے خلاف منظم تشدد ریکارڈ کا حصہ ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ امریکہ کی طرف سے اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین ہر قسم کی مذہبی آزادی اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اس رپورٹ کے باوجود پاکستان اور چار دیگر ممالک کو مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک قرار دیے جانے کے بعد انہیں پابندیوں سے بچانے کے لیے صدارتی استثنٰی دینے کا اعلان کیا تھا۔
توہین مذہب کے اس کیس میں ملزمان کو سزا سنائے جانے کے بعد ان کے پاس اسلام آباد ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا موقع ابھی موجود ہے۔
اس کیس میں ملزمان کے وکیل اسد جمال اور سید حسن عباس نے عدالت میں ملزمان پر عائد الزامات کی تردید کی تھی۔
اس فیصلے کے بارے میں بات کرنے کے لیے وکیل اسد جمال سے رابطے کی کئی بار کوشش کے باوجود رابطہ نہ ہو سکا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ہم ان قوانین کے خلاف ہیں، کیوں کہ ان میں اکثر لوگوں کو غلط طور پر ملوث کر دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مذہب کسی بھی شخص کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کی بنیاد پر انہیں اس طرح کی سزائیں دینا درست نہیں۔
'نناوے فی صد مقدمات میں اعلیٰ عدالتوں میں ملزم بے گناہ ثابت ہوتے ہیں'
اس کیس کے حوالے سے آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کے تجربات کے مطابق 99 فی صد کیسز میں ملزمان کو اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے۔ کیوں کہ بیشتر کیسز میں ملزمان پر لگنے والے الزامات کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ آسیہ بی بی کے کیس میں بھی وجوہات تھیں لیکن اصل جرم نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے اور اگر کسی شخص کے خلاف مکمل ثبوت اور گواہان موجود ہوں، تو ہی ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔
قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پارلیمنٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے اور پارلیمان کو ہی اس بات کا جائزہ بھی لینا چاہیے کہ اس قانون کا کوئی غلط استعمال نہ ہو۔