صدر جو بائیڈن نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت امریکہ کے اندر بڑھتے ہوئے پرتشدد جرائم کے لیے متعدد اقدامات کرنے جا رہی ہے اور اس ضمن میں ان کے بقول، کمیونٹی کے خلاف برے کام کرنے والے برے افراد سے نمٹا جائے گا۔
صدر بائیڈن نے امریکہ کے اندر تشدد پر مبنی جرائم کے خاتمے کے لیے ایک حکمت عملی کا اعلان ایسے وقت پر کیا ہے جب قومی سطح پر، بالخصوص کرونا کے دنوں میں، پرتشدد جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
وائٹ ہاؤس سے خطاب میں صدر بائیڈن نے ملک کے اندر فائرنگ کے حالیہ واقعات، مسلح ڈکیتیوں کی وارداتوں اور دیگر جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے اس طرح کے متشدد جرائم کو روکنے کی حکمت عملی بیان کی، جس میں اسلحے کے پھیلاؤ کو روکنے اور نوجوانوں کے لیے روزگار عام کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ، ’’تاریخی طور پر بھی موسم گرما کے دوران جرائم میں اضافہ ہوتا ہے، ایسے میں جب ہم عالمی وبا سے باہر نکل رہے ہیں، ملک دوبارہ کھل رہا ہے، یہ موسم گرما جرائم کے اعتبار سے زیادہ قابل ذکر ہو سکتا ہے‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
جو بائیڈن اس سے قبل بندوق سے پھیلنے والے تشدد میں کمی لانے کے لیے متعدد صدارتی حکم نامے جاری کر چکے ہیں اور بدھ کے روز خطاب میں بھی انہوں نے کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ گن کنٹرول کے لیے قانون سازی کرے۔
انہوں نے کانگریس سے کہا کہ وہ بیورو آف الکوحل، ٹوبیکو، فائر آرمز اینڈ ایکسپلوسوز کے ادارے کی سربراہی کے لیے ان کے انتخاب ڈیوڈ چپمین کی نامزدگی کی توثیق کریں۔
امریکہ میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد ابتدائی مہنیوں میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وبا کے سبب عام زندگی میں معاشی مشکلات اور بے چینی پیدا ہوئی ہے۔
تشدد کے واقعات میں کمی لانے کے لیے صدر بائیڈن کی حکمت عملی میں ان شہروں کو مزید وسائل فراہم کرنا بھی شامل ہے جہاں اس طرح کے واقعات زیادہ رونما ہوئے ہیں تاکہ شہری انتظامیہ پولیسنگ میں اضافے اور کمیونٹی کے تحفظ کے لیے اقدامات کر سکے۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ بالخصوص نوجوانوں کے لیے روزگار پر کام کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کے ہاتھ میں اسلحہ آنے کی بجائے تنخواہ آئے۔
صدر بائیڈن کے خطاب سے قبل اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وفاقی حکومت جو اقدامات کر رہی ہے وہ مددگار ہیں لیکن بڑھتے ہوئے جرائم کی لہر کے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔
تشدد کے واقعات میں حالیہ اضافے پر ایک نظر:
صرف نیویارک شہر میں، پولیس کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، اس سال کے اندر فائرنگ کے 194 واقعات پیش آئے ہیں۔ جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران 171 واقعات پیش آئے تھے۔
تشدد میں اضافے کا رجحان اس سال بھی جاری ہے۔ اور جرائم کے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق ایسے میں جب کووڈ سے متعلق کیے گئے احتیاطی اقدامات کا نفاذ کم ہو رہا ہے، یہ سال بھی تشدد کے حوالے سے بدستور خطرناک ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو میں نیشنل اوپینئن ریسرچ سنٹر سے وابستہ ماہر امور جرائم، جان رومن نے کہا کہ انہیں اس سال بھی بہتری کی توقع نظر نہیں آتی۔
’’ مجھے خدشہ ہے کہ سال 2021 بھی اتنا ہی خراب ہو گا جتنا کہ 2020 تھا‘‘
کیا اسباب ہیں جو گن وائلنس کا سبب بن رہے ہیں؟
اس بارے میں مباحثے جاری ہیں۔ جرائم کے امور کے ماہرین کے مطابق نہ صرف کرونا کی عالمی وبا ان واقعات میں اضافے کا سبب ہے بلکہ گزشتہ سال ریاست مینیسوٹا میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت پر ملک گیر مظاہروں نے بھی اس کو ہوا دی ہے۔
ری پبلکن اراکین کانگریس امریکہ میں پر تشدد جرائم کا الزام انصاف کے نظام کو اور ان پالیسیوں کو دیتے ہیں جو ان کے بقول ڈیموکریٹس کے مئیرز نے شروع کر رکھی ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ جواب میں متعدد اقدامات گنواتی ہے جو اس نے گن وائلنس کو روکنے کے لیے اٹھائے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر عہدیدار نے منگل کے روز وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب سے صدر بائیڈن اقتدار میں آئے ہیں، انہوں نے پہلے دن سے ہی بندوق کے ذریعے پھیلنے والے تشدد کے خلاف اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے شہروں کو وسائل فراہم کیے ہیں تاکہ وہ اپنی کمیونیٹیز کو محفوظ بنا سکیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بندوقوں میں کمی ایک ہدف:
وائٹ ہاؤس کے عہدیدار کے مطابق بندوقوں کے پھیلاؤ کو روکنا بائیڈن کی جرائم کے خلاف حکمت عملی کا اہم عنصر ہے۔
امریکہ کے اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے گزشتہ ماہ پرتشدد جرائم میں کمی کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔ اور اس کے بعد محکمہ انصاف نے پانچ انداز کے اقدامات کا اعلان کیا ہے جس میں گھوسٹ گنز (ایسا اسلحہ جو مقامی سطح پر تیار کیا جاتا ہے اور اس پر کوئی سیئرئل نمبر موجود نہیں ہوتا) کو ہدف بنانا شامل ہے تاکہ اس کی فروخت کو روکا جا سکے۔
اٹارنی جنرل نے اس سے قبل تشدد میں کمی لانے کی حکمت عملی کے پانچ بنیادی ستون بیان کر رکھے ہیں جن میں آتشیں اسلحے کے پھیلاؤ میں کمی لانا، وفاق کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں کی وسائل اور ہتھیاروں میں مدد تاکہ وہ موسم گرما میں پر تشدد جرائم کا مقابلہ کر سکیں، ثبوتوں کے ساتھ کمیونٹی وائلنس میں دخل اندازی، سمر پروگرامنگ میں توسیع، ملازمت کے مواقع اور نوجوانوں اور بالغوں کے لیے سروسز اور مدد اور پہلے سے جیلوں میں بند افراد کو کامیابی سے واپس ان کی کمیونٹی میں لے آنا شامل ہیں۔
امریکہ میں اسلحے پر کنٹرول کے بارے میں رائے عامہ منقسم کیوں؟
پیو ریسرچ کے مطابق امریکہ میں اسلحہ رکھنے کی روایت اور رواج کی جڑیں بہت گہری ہیں اور یہ معاملہ معاشرے کے اندر ایک بڑی بحث کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
SEE ALSO: گن وائلنس روکنے کے لیے صدر بائیڈن کی جانب سے انتظامی اقدامات کا اعلانامریکہ کے آئین کی دوسری ترمیم امریکی شہریوں کو حق فراہم کرتی ہے کہ وہ آتشیں اسلحہ پاس رکھ سکیں اور پیو ریسرچ کے مطابق ہر تیسرے امریکی کے پاس ذاتی بندوق موجود ہے۔
پیو ریسرچ کے گیارہ مئی 2021 کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 48 فیصد یعنی امریکیوں کی تقریباً نصف تعداد، بندوق کے ذریعے پھیلنے والے تشدد کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ خیال کرتی ہے۔ پیو ریسرچ نے یہ سروے اپریل 2021 میں کیا تھا۔
اس سروے کے مطابق جن لوگوں سے سوال کیے گئے ان میں سے 49 فیصد کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں کے لیے قانونی طور پر اسلحہ رکھنا مشکل بنا دیا جائے تو تشدد میں کمی آ سکتی ہے۔ جب کہ 42 فیصد کا کہنا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 9 فیصد کہتے ہیں کہ اس طرح فائرنگ کے واقعات میں کمی کی بجائے اضافہ ہو جائے گا۔
گن کنٹرول کا معاملہ صدارتی انتخابات میں بھی اہم ملکی مسئلے کے طور پر سامنے آتا ہے جس میں صدارتی دوڑ میں شامل امیدوار اس بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں۔