افغانستان کے صدر اشرف غنی نے جمعے کے روز قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان طالبان کا مرکز ہے اور اسلام آباد کو عسکریت پسندوں اور دوسرے دہشت گرد گروپس کے خاتمے کے لیے عملی اور واضح اقدامات کرنے ہوں گے۔
صدر غنی نے اپنی تقریر کے دوران بتایا کہ افغانستان نے شورش پسندوں کی ایک فہرست پاکستان کے حوالے کی ہے ۔
صدر اشرف غنی نے الزام لگایا کہ کابل کی حکومت کے خلاف لڑنے والے طالبان شورش پسند پاکستان کو اپنے ایک ہیڈ کوارٹرز کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
افغان صدر کی جانب سے لگائے جانے والے یہ الزامات دارالحکومت کابل میں دہشت گرد حملوں کی حالیہ لہر کے پس منظر میں دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدیوں کو اجاگر کرتے ہیں ۔ ان حملوں میں چار امریکیوں سمیت 140 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
قوم سے اپنے خطاب میں صدر غنی نے دعویٰ کیا کہ تشدد کے واقعات سے تعلق کے سلسلے میں 11 مشتبہ افراد کو پکڑا گیا تھا جس سے ان کی شناخت اور ان کے محل وقوع کا انكشاف ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ ان افراد کی فہرست اور ان کے نیٹ ورک سے متعلق معلومات پاکستان کے ساتھ شیئر کی جا چکی ہیں اور ہم نے اسلام آباد سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر ان کے خلاف ٹھوس اور واضح کارروائیاں کرے اور کھوکھلے وعدے نہ کرے۔
بدھ کے روز افغانستان کے سیکیورٹی کے سربراہ اور وزیر داخلہ نے پاکستان کا اچانک دورہ کیا تھا اور انہوں نے پاکستان کے اعلیٰ سول، فوجی اور انٹیلی جینس حکام کے ساتھ ملاقات میں ایک فہرست ان کے حوالے کی تھی۔
افغان عہدے داروں کا کہنا ہے کہ پاکستان طالبان کا ہیڈ کوارٹرز ہے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ان کے خلاف کارروائی کرے۔
جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں جب پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سے افغانستان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنھوں ان کی تردید کی۔
’’ہم حقانی نیٹ ورک یا طالبان کی حمایت اور اُنھیں اپنی سرزمین استعمال کرنے دینے کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ پاکستان اپنی سرزمین پر تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔‘‘
ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ افغان وفد نے اپنے دورے کے دوران ’’ہم سے کچھ معلومات کا تبادلہ کیا، ہم فراہم کردہ معلومات کو دیکھیں گے اور جلد اُن سے رابطہ کریں گے۔‘‘
وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان ورکنگ گروپس کی سطح کے سلسلے میں پہلا مذاکراتی اجلاس ہفتے کو کابل میں ہو گا، جس میں پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کریں گی۔
ایک اور خبر کے مطابق وہائٹ ہاؤس کی جانب سے جنوبی ایشیائی خطے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی سے متعلق جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ أفغانستان میں امریکی کمانڈروں کو پاکستان میں کے اندر عسکریت پسندوں کومحفوظ ٹھکانے بنانے سے باز رکھنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے وہائٹ ہاؤس کے اس بیان پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی فوج کو پاکستان میں عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔
وہائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں جسے منگل کو رات گئے میڈیا کو بھیجا گیا، صدارت کے پہلے سال کے دوان ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی کامیابیوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
وہائٹ ہاؤس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کے لیے حکمت عملی امریکی کمانڈروں کو یہ اختیار اور وسائل فراہم کر تی ہے کہ وہ دہشت گردوں کو افغانستان اور پاکستان میں محفوظ ٹھکانے تلاش کرنے سے باز رکھے۔
وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر خان نے کہا کہ ہم نے اس بیان کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے کہ اس کی حاکمیت کا احترام کیا جانا چاہیے۔