پینسلوانیا کا شمار ایسی ریاستوں میں ہو رہا ہے جہاں 2020 کے صدارتی انتخاب کے دوران کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ ریاست کے ووٹرز کسی بھی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال کر انتخابات کے نتائج پر فیصلہ کن طریقے سے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
اس ریاست کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے حریف جو بائیڈن نے پیر کو ایک دوسرے کے مقابلے میں جلسوں سے خطاب کیا۔
الیکشن سے ایک ہفتہ قبل دونوں امیدواروں نے ایسے ووٹرز پر توجہ دی جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ ڈالیں گے۔
تین نومبر کے الیکشن کے لیے اس سال مہمات کی روایتی گہماگہمی کرونا وائرس کے باعث گزشتہ کچھ مہینوں میں ماند پڑ گئی۔ لیکن آخری صدارتی مباحثے کے بعد دونوں طرف سے جلسوں اور بیانات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ بہت سے امریکی ووٹرز ڈاک کے ذریعے یا ارلی ووٹنگ کی سہولت استعمال کر کے ووٹ ڈال رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان پینسلوانیا اور فلوریڈا سمیت کئی ریاستوں میں سخت مقابلے کی توقع ہے اور اس الیکشن کا فیصلہ میدانِ جنگ بننے والی ان ریاستوں کے نتائج ہی کریں گے۔
پیر کو ہونے والے جلسوں میں ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے جہاں ری پبلکن جماعت کے صدر ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار بائیڈن نے اپنے اپنے منشور کو بیان کیا وہیں انہوں نے ایک دوسرے پر الزامات بھی لگائے۔
بائیڈن نے الزام لگایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے وائرس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں جب کہ صدر ٹرمپ نے بائیڈن کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اپنے اقدامات کا ذکر کیا۔
بائیڈن نے ریاست کے شہر چیسٹر میں مہم کے دوران دعویٰ کیا کہ ٹرمپ امریکی صدارت کے لیے ناموزوں ہیں اور وہ کرونا بحران میں امریکہ کی رہنمائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
اس سے چند گھنٹے قبل صدر ٹرمپ نے بائیڈن کو ایک قابلِ رحم صدارتی امیدوار قرار دیا تھا۔
ایلن ٹاؤن ایئرپورٹ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے بائیڈن کے ان الزامات کو غلط قرار دیا کہ ان کی انتظامیہ نے سفید پرچم بلند کر کے کرونا وائرس سے ہار مان لی ہے۔
بلکہ انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس بائیڈن نے زندگی کے آگے ہار مان لی ہے۔ انہیں اپنے تہہ خانے سے باہر نکلنا ہو گا۔ یہ شخص تو اپنے تہہ خانے سے باہر ہی نہیں نکلتا۔
پینسلوانیا میں بائیڈن نے دو مقامات پر گاڑی میں بیٹھے لوگوں سے ہفتے کو خطاب کیا، جہاں سماجی فاصلوں کی پابندی لگائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ آئندہ دنوں میں آئیووا، وسکانسن، جارجیا اور فلوریڈا کی ریاستوں میں ایسے ہی منعقدہ جلسوں سے خطاب کریں گے۔
دونوں امیدواروں کی ایک دوسرے پر تنقید جاری ہے۔ ٹرمپ اکثر بائیڈن کے دور نائب صدارت میں ان کے بیٹے ہنٹر بائیڈن پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہیں جب کہ بائیڈن نے ٹرمپ کو نسلی تفاوت کو ہوا دینے کا الزام دے کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
پینسلوانیا اور فلوریڈا کو 2020 کے الیکشن میں دو بڑی سوئنگ ریاستیں تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ ماہرین کے مطابق وسکانسن، نیواڈا، اوہائیو، ایری زونا اور حتی کہ روایتی طور پر سرخ یعنی ری پبلکن ریاست ٹیکساس میں بھی بہت قریبی مقابلے کے انتخابی معرکے ہو سکتے ہیں۔
اخبار 'یو ایس اے ٹو ڈے' کی ایک رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے ان سخت مقابلے کی ریاستوں میں حالیہ دنوں میں اپنی پوزیشن کو بہتر کیا ہے۔ تاہم بائیڈن اب بھی کئی ریاستوں میں سبقت لیے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم یہ برتری تھوڑے سے پوائنٹس کی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی نظامِ انتخاب میں عوامی ووٹ کی بجائے الیکٹورل ووٹ صدر کو منتخب کرتا ہے۔ کسی امیدوار کو کامیاب ہونے کے لیے عوامی ووٹ کے ذریعے جیتنے والے 538 الیکٹورل کالج کے نمائندوں پر مشتمل ووٹوں میں سے 270 ووٹ حاصل کرنا ہوتے ہیں۔
فلوریڈا کے 29 الیکٹورل ووٹ ہیں اور اس لیے اِسے سب سے بڑی سوئنگ اسٹیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ سوئنگ اسٹیٹ سے مراد ایسی ریاست ہے جس کا ووٹ کسی بھی امیدوار کے حق میں جا سکتا ہے اور یوں الیکشن کے نتائج پر فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہو سکتا ہے۔
لیکن یہ پیشین گوئی کرنا انتہائی مشکل ہے کہ اس کے ریاست فلوریڈا میں مقیم ووٹر کس پارٹی کےحق میں ووٹ ڈالیں گے۔
ریاست پینسلوانیا کے 20 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ 2016 کے صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ نے اس ریاست میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلری کلنٹن کو شکست دی تھی۔
سوئنگ اسٹیٹس کے حوالے سے دونوں جماعتیں متضاد دعوے کر رہی ہیں۔ تازہ ترین رجحانات کو سمجھنے کے لیے وائس آف امریکہ نے ری پبلکن اور ڈیموکریٹک ماہرین سے بات کی۔
ایم جے خان ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں عرصہ دراز سے مقیم ری پبلکن سیاست دان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی آخری مباحثے میں بہتر کارکردگی کی بنیاد پر ان کے انتخابی گراف میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
ان کے بقول، "میں سمجھتا ہوں کہ بائیڈن نے اس مباحثے میں ایک بہت بڑی غلطی اس وقت کی جب انہوں نے کہا کہ وہ معدنی تیل کی تلاش کے لیے کنوئیں کھودنے پر یکسر پابندی لگا دیں گے۔ انہوں نے شاید ڈیموکریٹک پارٹی کے انتہائی بائیں جانب کی سوچ رکھنے والے رہنماؤں کی حمایت کی۔"
ایم جے خان کے مطابق حقیقت میں بائیڈن کو اس بیان کا نقصان ہوا ہے اور اب ری پبلکن پارٹی نے ان کے اس بیان سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اور وہ اس نکتے کی بنیاد پر ووٹروں کی حمایت جیتنے میں بڑے پر امید ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی میری لینڈ ریاست میں مقیم سیاست دان عائشہ خان کہتی ہیں کہ ان کی جماعت نے 2016 کی انتخابی مہم میں کی گئی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اور گزشتہ چار سال کی پالیسیوں کے سبب اب امریکہ کی کثیرالثقافتی برادریوں اور تارکینِ وطن ووٹروں کی اکثریت بائیڈن کے ساتھ ہے۔
وہ کہتی ہیں:
" 2016 اور 2020 کے الیکشن میں ایک بہت بڑا فرق آج کا کرونا بحران ہے۔ حکومت کی طرف سے وبا سے جڑے مسائل کے حل میں تاخیر ڈیموکریٹس کے لیے ایک موقع ہے اور عوام بھی اسے دیکھ رہے ہیں۔"
عائشہ خان کہتی ہیں کہ پینسلوانیا جیسی ریاستوں میں مقابلہ بہت سخت ہو گا۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹک اور ری پبلکن جماعتوں کے منشور، مختلف برادریوں کی سیاسی اور معاشی ترجیحات، دونوں مہمات کے مرکزی نکات کے علاوہ امریکہ کے دیہی علاقوں میں ووٹروں کی سوچ کا رجحان الیکشن کے نتائج کو فیصلہ کن بنانے میں اہم ترین عوامل ہوں گے۔
اس سلسلے میں ایم جے خان ریاست ٹیکساس کی مثال دیتے ہیں جو روایتی طور پر ری پبلکن ریاست چلی آرہی ہے۔
ان کے بقول "ڈیموکریٹس نے ٹیکساس کے بڑے شہروں میں اپنے آپ کو مستحکم کیا ہے مگر اس ریاست کا نتیجہ دیہی علاقے کے ووٹرز کریں گے۔ اگر ان کا رجحان ری پبلیکن کے حق میں رہتا ہے تو یہ ریاست نیلی یعنی ڈیموکریٹک ہونے کی بجائے سرخ یعنی ری پبلکن ہی رہے گی۔"