امریکہ کے صدارتی انتخاب برائے سال 2020 کا آخری صدارتی مباحثہ جمعرات کو ہو گا جس کے دوران ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن آمنے سامنے ہوں گے۔ اس مباحثے کو صدارتی امیدواروں کے لیے ووٹروں کو اپنے اپنے ایجنڈے پر قائل کرنے کا اہم ترین موقع قرار دیا جا رہا ہے۔
تین نومبر کے صدارتی الیکشن سے دو ہفتے قبل ہونے والے اس مباحثے کی اہمیت اس لیے بھی مزید بڑھ گئی ہے۔ کیوں کہ دوسرا مباحثہ منعقد نہ ہو سکا تھا جب کہ پہلے مذاکرے میں دونوں طرف سے بارہا کی جانے والی روک ٹوک سے دونوں امیدوار اپنے سیاسی پروگرام کو واضح طور پر بیان نہ کر سکے۔
کرونا بحران کے دوران ہونے والے انتخابات میں لوگ دونوں طرف کے امیدواروں سے اس وبا کے صحت اور معاشی اثرات سے نمٹنے کے منصوبوں میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔
ریاست ٹینیسی کے شہر نیشول میں ہونے والے اس ڈیڑھ گھنٹے کے مباحثے کی میزبانی 'این بی سی نیوز' چینل کر رہا ہے اور امریکی ووٹروں کی ایک بڑی تعداد اسے بغیر کسی اشتہار کے وقفے کے براہِ راست دیکھ سکے گی۔
پندرہ پندرہ منٹ کے چھ حصوں پر مشتمل اس مباحثے میں کووڈ-19 کے خلاف جنگ، امریکی خاندان، نسل پرستی کے مسائل، ماحولیاتی تبدیلی، قومی سلامتی اور قائدانہ قابلیت کے موضوعات پر بحث ہو گی۔
ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے رہنما اس مباحثے کو امریکی عوام سے براہِ راست گفتگو کا اہم موقع قرار دیتے ہیں کیوں کہ دونوں امیدوار بھرپور کوشش کریں گے کہ ایسے ووٹرز اور ریاستیں جو ابھی تک کسی بھی طرف مائل نظر نہیں آتیں، انہیں اس بات پر قائل کیا جائے کہ ان کے منصوبے ہی سے امریکہ کو درپیش موجودہ مسائل سے نکالا جا سکتا ہے۔
ساجد تارڑ پاکستانی امریکی برادری کی ایک نمایاں کاروباری اور سیاسی شخصیت اور صدر ٹرمپ کے حمایتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اس مباحثے میں اپنی شاندار کارکردگی کے بل بوتے پر اعتماد سے حصہ لیں گے اور امریکی ووٹروں کے اپنے حریف کے مقابلے میں معیشت کے میدان میں کامیابی سے متعلق بتائیں گے۔
ساجد تارڑ 'مسلمز فار امریکہ' تنظیم کے بانی بھی ہیں، وہ کہتے ہیں ''صدر ٹرمپ امریکی عوام کو یہ بتانا چاہیں گے کہ انہوں نے امریکہ کی اقتصادی ترقی اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے میں 47 مہینوں میں وہ کچھ کر دکھایا ہے جو ان کے مقابل بائیڈن 47 برسوں میں نہ کر پائے اور دونوں کی عوامی خدمت کے حوالے سے فرق بالکل واضح ہے۔
ان کے بقول صدر ٹرمپ امریکی ووٹروں کو یاد دلانا چاہیں گے کہ بائیڈن کے بیٹے نے ان کی نائب صدارت کے دنوں میں کس طرح اپنے لیے کاروباری فوائد حاصل کیے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ اتنظامیہ کے کیے گئے اقدامات نے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب اس موذی مرض کا شکار ہونے والے افراد میں شرح اموات 85 فی صد کم ہوئی ہے۔
جب ان سے کرونا وائرس بحران سے نمٹنے کے لیے دوسرے سٹیمولس پیکج میں تاخیر کے حوالے سے پوچھا گیا تو ساجد تارڑ نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ موجودہ حکومت اس پیکج کو نہیں دینا چاہتی اور اس پر کانگریس میں مذاکرات چل رہے ہیں۔
قدامت پسند سیاست کے پیروکاروں کے مقابلے میں ڈیموکریٹک رہنما کہتے ہیں کہ بائیڈن کرونا وائرس کے خلاف جنگ کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔
ملک ندیم عابد نیویارک ریاست میں ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کی مختلف برادریوں کے نمائندوں پر مشتمل ایتھنک کوآرڈینیٹنگ کونسل کے چیئرمین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے اقدامات کے برعکس سابق نائب صدر بائیڈن امریکی ووٹروں کو اپنے روڈ میپ سے آگاہ کرنا چاہیں گے۔
عابد نے، جو بھارت کے زیر انتطام کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں، مشرق وسطی میں ایک کانفرس میں شرکت کرنے کے دوران وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "ڈیموکریٹک پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ امریکی معیشت اور کرونا وائرس کے خلاف لڑائی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور بائیڈن بتائیں گے کہ اس سلسلے میں ایک مؤثر پلان کے کیا پہلو ہیں۔"
جب ان سے پوچھا گیا کہ اب تک بائیڈن نے کرونا بحران سے نمٹنے کے لیے کسی مربوط منصوبے کو بیان نہیں کیا، تو انہوں نے اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ مضبوط پالیسی ہی امریکہ کی اقتصادی بحالی اور کرونا وائرس سے نجات کو یقینی بنا سکتی ہے۔
ندیم عابد نے اس تنقید کو غلط قرار دیا کہ بائیڈن کو معاشی میدان میں تجربہ نہیں ہے اور کہا کہ صدر اوباما کے دور میں ان کی مشاورت سے کیے گئے اقدامات نے امریکہ کی معیشت کو مضبوط کیا۔
اس سلسلے میں انہوں نے نیویارک ریاست کی بھی مثال دی اور کہا کہ اس ڈیموکریٹک ریاست نے صحت عامہ کے اتنے بڑے بحران کا مقابلہ کیا اور اب لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
ندیم عابد کے بقول بائیڈن اس مباحثے میں ماحولیاتی تبدیلی اور امیگریشن کے مسائل کو بھی اجاگر کریں گے۔
میری لینڈ ریاست میں مقیم پاکستانی امریکی ساجد تارڑ نے کہا کہ صدر ٹرمپ اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ بائیڈن امریکی معیشت کو سوشلزم کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، جب کہ عابد ندیم کہتے ہیں صدر ٹرمپ کی پالیسی کے مقابلے میں بائیڈن امیر ترین کاروبار کے مالکان پر عائد ٹیکس کی شرح میں اضافے کے حامی اس لیے ہیں کیوں کہ وہ اقتصادی دیوالیہ نہیں چاہتے۔
تقریباً تمام مسائل پر مخالف نظریات اور پالیسیوں پر یقین رکھنے کے باوجود جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے دونوں پارٹیوں کے رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ جمعرات کو ہونے والے مباحثے میں خارجہ پالیسی کو ضرور شامل ہونا چاہیے۔
ساجد تارڑ کہتے ہیں کہ بائیں جانب جھکاؤ رکھنے والا امریکی میڈیا خارجہ امور پر اس لیے زیادہ بات نہیں کرتا کیوں کہ اس میدان میں صدر ٹرمپ نے بہت سی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ مشرق وسطی میں امن کا قیام اور صدر ٹرمپ کا امریکہ کو کسی نئی جنگ میں نہ دھکیلنا امریکہ کے لیے بڑی کامیابیاں ہیں۔
دوسری طرف ندیم عابد کہتے ہیں کہ جمعرات کے آخری مباحثے میں خارجہ امور کے مسائل پر بات ہونی چاہیے کیوں کہ بائیڈن روس اور چین کے متعلق پالیسیوں پر بات کرنا چاہیں گے۔