اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں لوگ خوشی کے جذبات کا اظہار کررہے ہیں کیونکہ نائین الیون کے حملوں میں تین ہزار سے زیادہ امریکی دہشت گردی کا نشانہ بن گئے تھے۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ بن لادن کی ہلاکت کا یہ مطلب نہیں کہ القاعدہ کا حوصلہ پست کردیا گیا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے ایک اسکالر رچرڈ وائز کہتے ہیں کہ کم از کم کچھ عرصے کےلیے القاعدہ سے وابستہ مختلف تنظیمیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گی کیونکہ ان میں ایسا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے ایک اسکالررچرڈ وائز 2001 میں پنٹاگان سے باہر نکلے ہی تھے کہ دہشت گردوں نے اس عمارت سے جہاز ٹکرا دیا۔ وائزکی زندگی بدل گئی۔ اور اس حملے کے بعد القائدہ بھی مختلف علاقائی ٹکڑوں میں بٹ گئی۔
ماہرین کے مطابق ممکن ہے القاعدہ کی قیادت کے بارے میں مزید معلومات ابیٹ آباد میں بن لادن کے کمپاونڈ سے ملنے والے دستاویزات اور کمپیوٹر فائلز سے بھی حاصل کی جا سکیں۔
ہیرٹیج فاؤنڈیشن کے ایک ماہر جیمز کیرافانو کا کہناہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ کس قسم کی معلومات سامنے آتی ہیں اور ان کے پاس کس قسم کی معلومات موجود ہیں۔ یقینا لوگ بدلہ لینے کی بات کریں گے۔ کچھ عرصے تک لوگوں کو یہ فکر ہو گی کہ وہ اگلا نشانہ ہو سکتے ہیں۔ اور وہ ممکنہ پناہ گاہوں کے بارے میں سوچیں گے۔
ماہرین کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے بعد القاعدہ مزید بکھرنا شروع ہو جا ئے ۔کیرافانو کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ بن لادن کی جا نشینی کے مسئلے پر لڑائی چھڑ جائے جس کے نتیجے میں یہ تنظیم متاثر ہو سکتی ہے۔مگر ان کا کہناہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ بن لادن جیسا کو ئی دوسرا موثر لیڈر سامنے آسکے گا۔
بن لادن کے نائب، مصر کے ایمن الظواہری القاعدہ کی کارروائیوں کی سربراہی کر تے آ رہے ہیں۔ امریکہ نے بن لادن کی طرح ان کے سر پہ بھی ڈھائی لاکھ ڈالر کا انعام رکھا ہے ۔ لیکن ماہرین کے مطابق الظواہری کا اقتدار میں آنا القاعدہ کے مصری اور عرب ارکان کے درمیان تفریق پیدا کر سکتا ہے۔ ۔
ہیرٹیج فاؤيڈیشن کے اسکالر جیمز کیرافانو کے مطابق یمن یا کسی اور عرب ملک میں بھی القاعدہ کو بہت سے مسائل پیش آ سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سعودی اس بارے میں بہت فکر مند ہیں اور وہ ان لوگوں کا پیچھا کر رہے ہیں۔ یمن بھی مرکز قائم کرنے کے لیے بہترین جگہ نہیں۔ اور اب ان پر ہماری نظر بھی ہے۔ جو 11 ستمبر 2001 سے پہلے کے افغانستان سے بہت مختلف ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق القاعدہ کے زوال کے آثار کچھ برسوں سے ظاہر ہیں۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینک سینٹر فار امریکن پراگریس کے ایک ماہر برائن کیلس کا کہناہے کہ گزشتہ چار یا پانچ برسوں کے دوران القاعدہ اپنا کوئی ایجنڈا بنانے میں بھی کامیاب دکھائی نہیں دیتی۔ اسے عراق میں شکست ہوئی۔ اس نے عرب دنیا میں، اور پاکستان اور افغانستان جیسے ملکوں میں عوام کو نشانہ بنا کر اپنے ہی مفادات کو نقصان پہنچایا۔ عرب دنیا میں حالیہ تحریکوں اور آزادی کے مطالبوں میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔
ماہرین کے مطابق بن لادن کی ہلاکت القاعدہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کے لیے ایک جیت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ کہتے ہیں کہ اب القاعدہ بدلہ لینے کے لیے دہشت گرد حملے کا بہترین موقع بھی تلاش کرنے کی کوشش کرے گی۔