کیا پہلی مرتبہ امریکہ آنے والے پاکستانیوں کی اکثریت کو اپنی انگریزی بولنے کی صلاحیت کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت ہے؟
‘Don’t eat Schish with it’..
اس کا ترجمہ کچھ یوں ہوا کہ-- اس کے ساتھ سکیش بلکل نہیں کھانا۔
یہ جملہ ایک بڑی فارمیسی کے سٹور پر چینی نقش ونگار والی چیف فارمیسسٹ نے وارننگ دیئے جانے والے لہجے میں مجھ سے کہا۔
وہ دھان پان سی فارمیسسٹ مجھے ڈھونڈتے ہوئے میرے پیچھے پیچھے سٹور کے اس حصے تک چلی آئی تھیں جہاں میں ان کی ہدایت کے مطابق اپنی دوا کی تلاش میں پہنچی تھی۔ یادداشت میں موجود انگلش کی لغت کو ٹٹولا۔ خاتون سے پوچھا۔ بارہا پوچھا۔ لیکن، اس چیز کا سر پیر سمجھ نہ آیا جس سے پرہیز کا مشورہ بلکہ وارننگ دی جارہی تھی۔ کوئی چوتھی بار میرے پوچھنے اور ان کی وضاحت کی کوشش پر جب ان کی سانس پھولنے لگی تو ہم نے مصنوعی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: Oh! O.K! I got it
بعد میں، ڈاکٹر سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ ’شرمپ‘ یٰعنی ’جھینگا‘ کھانے سے پرہیز کی تاکید کی جا رہی تھی۔ اب کون تصور کرسکتا تھا کہ ’شرمپ‘ بگڑ کر ’سکیش‘ بھی بن سکتا تھا۔
یہ وا قعہ کوئی آٹھ سال پہلے شروع ہونے والی میری امریکی زندگی کے ابتدائی دنوں کا ہے۔ اس کے بعد واشنگٹن ڈی سی جیسے انتہائی متنوع علاقے میں بھانت بھانت کے لہجوں کی انگلش سے نمٹنے کے لیے میں نے ایک سادہ سا فارمولا اپنا لیا، اور وہ تھا کہ اگر زندگی اور موت کا مسئلہ نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ دو دفعہ پوچھو سمجھ نہ آئے تو ’تھینک یو‘ کہہ کر آگے بڑھ جاو۔
جتنے رنگوں کی جلد اور ناک نقشے کے لوگ امریکی آبادی میں نظر آئے، اتنی ہی اقسام کے لہجوں میں انگلش سننے کو ملی۔
اگر ذہن میں کوئی شک تھا تو جاتا رہا کہ امریکہ تارکین وطن کا ملک ہے۔
اس چینی امیریکن فارمیسسٹ جیسے امریکیوں کی انگریزی سن کر تو کانوں سے دھوئیں نکل پڑے۔ اور تو اور اپنی لغت میں ہمیشہ سے امریکی سمجھے جانے والے بہت سے لوگوں کی گرامر اور زبان کے بنیادی قوائد و ضوابط سے آزاد انگریزی دانی نے تو مجھے ایسا اعتماد دیا کہ اپنی ناقص انگلش میں بات چیت کی ساری جھجھک جاتی رہی۔
خود ہماری انگلش ان رنگ برنگے لہجوں کی انگلش کی کائینات میں کہاں سٹینڈ کرتی تھی اس کا احساس خود امریکیوں نے جلد ہی دلا دیا تھا۔ ہماری انگلش پر اپنی حیرت کا اظہار کرکے، آج آٹھ سال ہو گئے۔ لیکن، امریکیوں کی ہماری اچھی، جی ہاں اچھی انگلش بولنے کی صلاحیت پر حیرت وہیں کی وہیں موجود ہے۔
یقین نہیں آتا۔ شروع میں خود مجھے بھی نہیں آتا تھا۔
امریکہ آمد کے شروع کے دنوں میں اکثر امریکی ہماری انگلش سن کر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا کرتے۔
ویسے کرتے تو اب بھی ہیں۔ لیکن، کم از کم اس حیرت پر ہماری پریشانی اب باقی نہیں رہی۔ عام امریکی شہریوں سے لے کر ان کے نمائندوں اور امریکی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران تک نے اس حیرت کا اظہار کیا۔
دیکھی آپ نے امریکیوں میں ہماری مقبولیت؟
مذاق ایک طرف۔ دراصل، یہ سب چھوٹے بڑے امریکی میری کسی نہ کسی سٹوری کا حصہ بنے۔ انٹرویوز سے پہلے، دوران یا بعد میں جب بھی انہیں موقع ملتا میری سٹوریز کے سبجیکٹز مجھ سے پوچھے بنا نہ رہ پاتے کہ میری اچھی انگلش کا راز آخر کیا تھا؟ کیا میں پاکستان کے کسی خاص سکول سے تعلیم یافتہ ہوں یا پاکستان کے سب ہی سکولز میں بچوں کو اتنی اچھی انگریزی بولنے کی تعلیم دی جاتی ہے؟
اس وقت تو اس سوال کے جواب میں کبھی بڑے مفکرانہ انداز میں اور کبھی عام سے سٹائل میں اپنے مہمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
بعد میں، اکثر خود سے سوال کیا۔۔۔واقعی۔۔۔کیونکہ، خود مجھے اپنی ایوریج سی پاکستانی انگلش کے بارے میں یہ ہی خیال تھا کہ بس گزارے لائق ہے۔ اس ہی لئے پہلے تو لگا ہماری انگلش کی ہنسی اڑائی جارہی ہے۔ پھر لگا دل رکھا جا رہا ہے۔ کتنے اچھے دل کے ہیں امریکی۔ ہمارا دل رکھ رہے ہیں۔ لیکن، جب یہ سلسلہ جاری رہا تو ہمیں بھی اپنی سوچ بدلنی پڑی۔ خاص طور پر جب خود امریکیوں کی اپنی انگلش سنی۔
اور اب حال یہ ہے کہ امریکیوں کے سامنے جب بھی منہ سے غلط انگلش ٹپک پڑتی ہے تو اندر ایک کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ سکول اور کالج میں ٹیچرز کا پڑھایا ہوا سبق خوب شرمندہ کرکے مجبور کرتا ہے کہ فوراً غلطی کو ٹھیک کیا جائے۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن، پھر ساتھ ہی کہیں اندر سے ایک آواز بھی آتی ہے جو کہتی ہے ۔۔۔شش۔۔ شرمندگی کیسی بھئی۔۔
اس کا ترجمہ کچھ یوں ہوا کہ-- اس کے ساتھ سکیش بلکل نہیں کھانا۔
یہ جملہ ایک بڑی فارمیسی کے سٹور پر چینی نقش ونگار والی چیف فارمیسسٹ نے وارننگ دیئے جانے والے لہجے میں مجھ سے کہا۔
وہ دھان پان سی فارمیسسٹ مجھے ڈھونڈتے ہوئے میرے پیچھے پیچھے سٹور کے اس حصے تک چلی آئی تھیں جہاں میں ان کی ہدایت کے مطابق اپنی دوا کی تلاش میں پہنچی تھی۔ یادداشت میں موجود انگلش کی لغت کو ٹٹولا۔ خاتون سے پوچھا۔ بارہا پوچھا۔ لیکن، اس چیز کا سر پیر سمجھ نہ آیا جس سے پرہیز کا مشورہ بلکہ وارننگ دی جارہی تھی۔ کوئی چوتھی بار میرے پوچھنے اور ان کی وضاحت کی کوشش پر جب ان کی سانس پھولنے لگی تو ہم نے مصنوعی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: Oh! O.K! I got it
بعد میں، ڈاکٹر سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ ’شرمپ‘ یٰعنی ’جھینگا‘ کھانے سے پرہیز کی تاکید کی جا رہی تھی۔ اب کون تصور کرسکتا تھا کہ ’شرمپ‘ بگڑ کر ’سکیش‘ بھی بن سکتا تھا۔
یہ وا قعہ کوئی آٹھ سال پہلے شروع ہونے والی میری امریکی زندگی کے ابتدائی دنوں کا ہے۔ اس کے بعد واشنگٹن ڈی سی جیسے انتہائی متنوع علاقے میں بھانت بھانت کے لہجوں کی انگلش سے نمٹنے کے لیے میں نے ایک سادہ سا فارمولا اپنا لیا، اور وہ تھا کہ اگر زندگی اور موت کا مسئلہ نہ ہو تو زیادہ سے زیادہ دو دفعہ پوچھو سمجھ نہ آئے تو ’تھینک یو‘ کہہ کر آگے بڑھ جاو۔
جتنے رنگوں کی جلد اور ناک نقشے کے لوگ امریکی آبادی میں نظر آئے، اتنی ہی اقسام کے لہجوں میں انگلش سننے کو ملی۔
اگر ذہن میں کوئی شک تھا تو جاتا رہا کہ امریکہ تارکین وطن کا ملک ہے۔
اس چینی امیریکن فارمیسسٹ جیسے امریکیوں کی انگریزی سن کر تو کانوں سے دھوئیں نکل پڑے۔ اور تو اور اپنی لغت میں ہمیشہ سے امریکی سمجھے جانے والے بہت سے لوگوں کی گرامر اور زبان کے بنیادی قوائد و ضوابط سے آزاد انگریزی دانی نے تو مجھے ایسا اعتماد دیا کہ اپنی ناقص انگلش میں بات چیت کی ساری جھجھک جاتی رہی۔
یقین نہیں آتا۔ شروع میں خود مجھے بھی نہیں آتا تھا۔
امریکہ آمد کے شروع کے دنوں میں اکثر امریکی ہماری انگلش سن کر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا کرتے۔
ویسے کرتے تو اب بھی ہیں۔ لیکن، کم از کم اس حیرت پر ہماری پریشانی اب باقی نہیں رہی۔ عام امریکی شہریوں سے لے کر ان کے نمائندوں اور امریکی حکومت کے اعلیٰ عہدیداران تک نے اس حیرت کا اظہار کیا۔
دیکھی آپ نے امریکیوں میں ہماری مقبولیت؟
مذاق ایک طرف۔ دراصل، یہ سب چھوٹے بڑے امریکی میری کسی نہ کسی سٹوری کا حصہ بنے۔ انٹرویوز سے پہلے، دوران یا بعد میں جب بھی انہیں موقع ملتا میری سٹوریز کے سبجیکٹز مجھ سے پوچھے بنا نہ رہ پاتے کہ میری اچھی انگلش کا راز آخر کیا تھا؟ کیا میں پاکستان کے کسی خاص سکول سے تعلیم یافتہ ہوں یا پاکستان کے سب ہی سکولز میں بچوں کو اتنی اچھی انگریزی بولنے کی تعلیم دی جاتی ہے؟
اس وقت تو اس سوال کے جواب میں کبھی بڑے مفکرانہ انداز میں اور کبھی عام سے سٹائل میں اپنے مہمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
بعد میں، اکثر خود سے سوال کیا۔۔۔واقعی۔۔۔کیونکہ، خود مجھے اپنی ایوریج سی پاکستانی انگلش کے بارے میں یہ ہی خیال تھا کہ بس گزارے لائق ہے۔ اس ہی لئے پہلے تو لگا ہماری انگلش کی ہنسی اڑائی جارہی ہے۔ پھر لگا دل رکھا جا رہا ہے۔ کتنے اچھے دل کے ہیں امریکی۔ ہمارا دل رکھ رہے ہیں۔ لیکن، جب یہ سلسلہ جاری رہا تو ہمیں بھی اپنی سوچ بدلنی پڑی۔ خاص طور پر جب خود امریکیوں کی اپنی انگلش سنی۔
اور اب حال یہ ہے کہ امریکیوں کے سامنے جب بھی منہ سے غلط انگلش ٹپک پڑتی ہے تو اندر ایک کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ سکول اور کالج میں ٹیچرز کا پڑھایا ہوا سبق خوب شرمندہ کرکے مجبور کرتا ہے کہ فوراً غلطی کو ٹھیک کیا جائے۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن، پھر ساتھ ہی کہیں اندر سے ایک آواز بھی آتی ہے جو کہتی ہے ۔۔۔شش۔۔ شرمندگی کیسی بھئی۔۔