رسائی کے لنکس

کیا سفید فام امریکی اپنے ملک میں اقلیت بن جائیں گے؟


کیا سفید فام امریکی اپنے ملک میں اقلیت بن جائیں گے؟
کیا سفید فام امریکی اپنے ملک میں اقلیت بن جائیں گے؟

پروفیسر فرائے امریکہ میں 2010ء میں کی جانے والی مردم شماری کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ سفید فام آبادی کی تعداد دس سال کے عرصے میں 70 فیصد کے مقابلے میں کم ہوکر 65 فیصد ہوچکی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف عوامل کی بنیاد پر مستقبل میں بھی اس تعداد میں کمی کا امکان ہے۔

امریکہ میں2010ء کی مردم شماری سے ظاہر ہوا ہے کہ سفید فام امریکیوں کی آبادی کم اور اقلیتوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ چندعشروں میں گورے امریکی اپنے ہی ملک میں اقلیت بن جائیں گے۔

سابق فوجی اور اب موسیقی سے لوگوں کا دل بہلا کر اپنی گزر اوقات کرنے والے سفید فام امریکی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے آبادی میں اپنی اکثریت اور علم وصلاحیت کے بل بوتے پر اس ملک پر صدیوں حکمرانی کی ۔ تاہم وہ وقت دور نہیں جب امریکی آبادی کا یہ حصہ اپنی برتری سے محروم ہو جائے گا ۔

پروفیسر ڈاکٹر ولیم فرائے کہتے ہیں کہ سفید فام اب بھی امریکی آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہیں ۔ یہ کل آبادی کا تقریباً 65 فیصد ہیں ۔

پروفیسر فرائے امریکہ میں 2010ء میں کی جانے والی مردم شماری کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ سفید فام آبادی کی تعداد دس سال کے عرصے میں 70 فیصد کے مقابلے میں کم ہوکر 65 فیصد ہوچکی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف عوامل کی بنیاد پر مستقبل میں بھی اس تعداد میں کمی کا امکان ہے۔

پروفیسر فرائے کے مطابق امریکہ کی سفید فام آبادی میں ہونے والی کمی کی ایک بڑی وجہ سفید فام بچوں اور ایسی خواتین کی تعداد کم ہونا ہے جو بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

اس کی سادہ سی وجہ ان کا عمر میں کہیں زیادہ ہونا ہے ۔اس کے علاوہ ان سفید فام خواتین میں بھی جن کے ہاں اولاد ہوسکتی ہے ماں بننے کا رجحان کم ہے ۔ جس کی وجہہ سے سفید فام آبادی میں اضافے کی شرح ہسپانوی تارکین وطن اور سیاہ فاموں سے کم ہے ۔

2010 ء کی مردم شماری سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ 2000کے عشرے میں امریکہ کی مجموعی آبادی میں اضافہ اس سے پہلے کے عشروں کے مقابلے میں کم رفتار سے ہوا ۔ڈاکٹر فرائے کا کہنا ہے کہ ملازمت کے بہتر مواقع ، رہائش اور زندگی کی دوسری نسبتاً سستی سہولیات کے باعث امریکی آبادی میں سب سے تیزی سے اضافہ جنوب مشرقی اور مغربی حصے کی ریاستوں میں ہو رہا ہے ۔ان ریاستوں میں سے ایک ریاست ٹیکساس کی ہے۔

ڈاکٹر فرائے کی رائے میں امریکیوں کی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ پچھلے چند برسوں میں معاشی صورت حال کے باعث امریکہ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں ہونے والی کمی اس کی بڑی وجوہ تھیں۔تاہم وہ کہتے ہیں کہ تقریباً دس فیصد کا یہ اضافہ بھی صحت مند تھا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آبادی میں اس نصف سے زیادہ اضافہ ہسپانوی نسل کی آبادی کے باعث ممکن ہوا ۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کی آبادی کا مستقبل نسلی اور لسانی اعتبار سے بہت زیادہ متنوع ہو گا ۔اس لحاظ سے انتہائی عالمی رنگ کا حامل کہ اس ملک کے جوانوں کی ایک بڑی تعداد کے والدین یا دادا نانا کا تعلق لاطینی امریکہ یا ایشیا سے ہوگا ۔ امریکہ میں ان گروپوں کی آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ ہو رہا ہے ۔ اور دس سال بعد یہ ہماری ورک فورس کا سب سے بڑا حصہ ہونگے ۔

ڈاکٹر فرائے کا کہناہے کہ ہمیں ان تارک وطن نوجوانوں کے لیے مساوی مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے جن کے والدین کم تعلیم یافتہ ہیں۔ جاپان یا یورپ کے کئی ممالک کے مقابلے میں جہاں افرادی قوت ناکافی ہونے کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں امیگریشن کے باعث ہماری افرادی قوت میں اضافہ ہورہا ہے ۔

اس افرادی قوت میں سفید فام امریکیوں کا کردار کیا ہوگا؟ ماہرین کی رائے میں اس کا انحصار بہت حد تک دوسرے گروپوں کی تعلیمی قابلیت اور اہلیت پر ہوگا ۔

XS
SM
MD
LG