پاکستان میں موجود ایئر لائنز کی فہرست میں حال ہی میں ایک نیا اضافہ ہوا ہے جو ہے ایئر سیال۔ یہ فضائی سروس اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ سیالکوٹ کے مقامی صنعت کاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنائی ہے۔
قومی اور ملکی ایئر لائنز کی موجودگی میں لوگوں کو فضائی سفر کی سہولت دینے والی اس نئی کمپنی کی آمد کسی اچھنبے کی بات نہیں۔ لیکن جو بات اہم ہے, وہ تقریباً 400 صنعت کاروں کی یک جہتی ہے جنہوں نے اپنے ایک ساتھی کے وژن کو سمجھا اور پھر اس کی تکمیل کے لیے کوشش شروع کر دی۔
ایئر سیال کیسی بنی؟
فضل جیلانی ایئر سیال کے چیئرمین ہیں۔ وہ سیالکوٹ میں سرجیکل کا سامان بنا کر بیرونِ ملک برآمد کرتے ہیں۔ فضل جیلانی سیالکوٹ ایئرپورٹ کے ڈائریکٹرز میں بھی شامل ہیں۔
ایئر سیال بنانے کا سلسلہ کچھ ایسے شروع ہوا جب سیالکوٹ ایئرپورٹ پر ایک عہدے کے لیے انٹرویو دینے کے لیے آنے والے ایک شخص کی حاضر جوابی اور ایئر لائن میں تجربے نے انٹرویو کمیٹی میں بیٹھے فضل جیلانی کو خاصا متاثر کیا۔ اس کے بعد انہیں فضائی سروس شروع کا خیال آیا اور منصوبے پر باقاعدہ عمل شروع ہوا۔
Your browser doesn’t support HTML5
فضل جیلانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب 2015 میں وہ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے دوبارہ صدر بنے تو انہوں نے تمام عہدے داران کو میٹنگ میں اپنا مدعا سمجھایا۔ ان کی دلچسپی بڑھی اور پانچ لاکھ روپے کی ٹوکن منی سے ایئر لائن قائم کرنے کے لیے فنڈز جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
"آٹھ کروڑ روپے جمع ہو گئے جس سے یہ کمپنی بنائی۔ ایک کروڑ روپے میں ڈائریکٹر شپ فروخت کرنے پر اتفاق ہوا۔ یعنی ایک کروڑ روپے کمپنی کے اکاؤنٹ میں جمع کراؤ اور ڈائریکٹر بن جاؤ۔"
ان صنعت کاروں کے لیے پیسے جمع کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔ لیکن ایئر لائن کے لائسنس کا حصول ضرور مشکل تھا، جس میں آٹھ مہینے لگ گئے۔
"لائسنس ملا تو جس کمپنی سے جہاز خریدنا تھا، وہاں مینوفیکچرنگ کے مسائل کی وجہ سے جہازوں کی پروڈکشن 40 سے 10 جہازوں پر آ گئی اور ہم پھر ایک لمبی قطار میں لگ گئے۔ اسی دوران روپے کی قدر میں کمی سے جو 20 لاکھ ڈالرز کے مساوی رقم جمع کی تھی وہ 14 لاکھ ڈالرز کے قریب رہ گئی۔"
غیر یقینی کی صورتِ حال نے بہت سے شیئر ہولڈرز کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ کچھ نے کہا کہ انہیں ان کے پیسے واپس چاہئیں۔ بعض نے کہا کہ وہ مزید پیسے نہیں دے سکتے۔ اسی اثنا میں لائسنس کی مدتِ میعاد ختم ہو گئی۔
"دوبارہ درخواست دی جس پر سول ایوی ایشن حکام کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ یہ 2018 کے عام انتخابات کے دن تھے۔ نئی حکومت کے چارج سنبھالنے میں جتنا وقت لگا، لائسنس کی تجدید کا معاملہ اتنا ہی طول پکڑتا گیا۔ پھر نئی حکومت کو درخواستوں کا سلسلہ شروع ہوا۔"
Your browser doesn’t support HTML5
فضل جیلانی کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی راتوں کی نیند اڑ گئی تھی۔ کیوں کہ معاملہ پیسوں کے داؤ پر لگنے سے زیادہ ان پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کا تھا۔ بالآخر ان کی بات وزیرِ اعظم عمران خان تک پہنچی اور انہیں جنوری 2020 کو دوبارہ لائسنس جاری ہو گیا۔ یوں 10 دسمبر 2020 کو ایئر سیال کا افتتاح ہوا۔
فضل جیلانی کہتے ہیں کہ یہ 400 ڈائریکٹرز اور 300 شیئر ہولڈرز کا مشترکہ منصوبہ تھا۔ اس لیے وہ اس ایئر لائن کے خواب کو مکمل کر سکے۔ کسی انفرادی شخص کے لیے شاید یہ اس سے بھی زیادہ مشکل ہوتا۔
صنعت کاروں کے مشترکہ سماجی منصوبے
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے موجودہ صدر اور ایئر سیال کے سینئر وائس چیئرمین قیصر اقبال بریار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرجیکل، اسپورٹس اور لیدر جیسی مختلف انڈسٹریز 38 سال پہلے سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے وجود میں آنے کی وجہ بنیں۔ لیکن ان کی پہچان سماجی بھلائی کے کام بنے ہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ سیالکوٹ کی 36 کلومیٹر پر پھیلی ایک سڑک بنوانے کے لیے چیمبر کے تمام ممبرز نے خود پر ٹیکس عائد کیا جس سے ایک خطیر رقم جمع ہوئی اور پھر حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد ملا کر سیالکوٹ کی سڑکیں بنائی گئیں۔
اس کے علاوہ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے پلیٹ فارم سے خود کفالت روزگار پروگرام کے تحت نوجوانوں کو چھوٹے قرضے بھی دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اس سے کوئی کاروبار شروع کر سکیں۔ تمام بزنس کمیونٹی کی طرف سے اکٹھی کی گئی رقم سے لوگ بلا سود قرضے لیتے ہیں اور کاروبار کے بعد پیسے واپس کر دیتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
قیصر اقبال بریار کہتے ہیں کہ شراکت داری کا سلسلہ یہاں نہیں رکتا بلکہ ہم یہاں ایسے مشترکہ پراجیکٹس کرتے ہیں جو انفرادی طور پر نہیں کیے جا سکتے۔ تو ہم یہ آئیڈیا لائے کہ پیسوں کو ایک جگہ جمع کر کے نئے کاروباری مواقع تلاش کریں۔
"اب ہم ایک بڑا اسپتال بنانے جا رہے ہیں اور اس کی ڈائریکٹر شپ بیچ رہے ہیں۔ ایئر سیال سمیت ان منصوبوں سے پیسہ کمانا مقصد نہیں۔ کیوں کہ پیسہ تو ہم اپنے آبائی کاروباروں سے کما رہے ہیں۔ اس لیے پیسہ کمانے کی فکر نہیں بلکہ اپنے لوگوں کو مناسب قیمت پر معیاری سہولت دینا ہے۔
ڈرائی پورٹ کیسے بنا؟
سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے 16 ہزار ممبرز ہیں جن میں سے چار سے پانچ ہزار ایکٹو ممبر ہیں۔ سیالکوٹ کی سڑکیں، ایئر سیال کی آمد، یہاں کے صنعت کاروں کے پہلے مشترکہ منصوبے نہیں۔ سینئر صنعت کار اور سیالکوٹ ایئرپورٹ کے موجودہ چیئرمین میاں نعیم جاوید کہتے ہیں کہ سیالکوٹ نے جب تجارت میں اپنا نام بنانا شروع کیا تو اس وقت تمام تجارتی سامان براستہ سمندر دوسرے ملک بھیجنے کے لیے کراچی جاتا تھا۔
"وہاں کاغذی کارروائی میں ایک نقطے کی غلطی پر بھی سامان روک لیتے تھے۔ تب خیال آیا کہ سیالکوٹ میں ہی ڈرائی پورٹ بنایا جائے تاکہ کسٹم کلیئرنس یہیں سے ہو جائے۔ یوں حکومت کو پروپوزل دیا اور مشترکہ تعاون سے ڈرائی پورٹ بن گیا جس میں بیورو کریسی حکومت کی ذمہ داری ہے اور سرمایہ کاری اور کاروباری انتظامات ہمارے سپرد ہیں۔"
سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا منصوبہ
اس کے بعد سیالکوٹ کے کاروباریوں کو ایئر پورٹ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ 20 سال تو صرف سوچنے اور کوشش کرنے میں ہی لگ گئے۔ بالآخر 1997 میں ایئرپورٹ کمیٹی بنی۔ اس کمیٹی کے پانچ ممبران میں میاں نعیم جاوید بھی ایک تھے۔
میاں نعیم جاوید کہتے ہیں جمہوری حکومت کو درخواستیں دینے کا سلسلہ سابق صدر پرویز مشرف پر جا کر رکا جب چیمبر کے لوگوں نے صدر مشرف سے ملاقات میں کہا کہ پاکستان میں باہر کے سرمایہ کاروں کے لیے تو ریڈ کارپٹ بچھائے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ملکی صنعت کار سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی موقع دیں۔
"حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے بعد 1038 ایکڑ کی زمین پر ایئرپورٹ کی تعمیر شروع ہوئی۔ اس دور میں بھی صنعت کاروں نے 50 لاکھ کے عوض ایک ڈائریکٹر شپ خریدی تھی۔ 17 ڈائریکٹرز سے شروع ہونے والا کاررواں اب 365 ڈائریکٹرز کے ساتھ کامیابی کی منازل طے کر رہا ہے۔"
میاں نعیم جاوید نے بتایا کہ سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کے بعد یہاں سے برآمدات کی مد میں ڈھائی ارب ڈالرز سے زائد کی تجارت ہو رہی ہے۔ کرونا وائرس کے حالات میں بھی ایک کامیاب ایئرپورٹ چلا رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی تمام ایئر لائنز یہاں آ رہی ہیں اور اب ہم یورپ تک بھی پہنچ رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سیالکوٹ کے صنعت کاروں کے مطابق شہر کی ترقی کا راز ان کی یک جہتی میں پوشیدہ ہے۔ اسی یک جہتی سے وہ اپنی خامیاں بھی دور کرتے ہیں۔
میاں نعیم جاوید کہتے ہیں کہ جب غیر ملکی کمپنیوں نے سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری میں بچوں کی مزدوری جیسے مسئلے کی نشان دہی کی تو ہم نے اس سے انکار نہیں کیا۔ بلکہ انہیں کہا کہ آپ پیسے دیں، ہم اپنے اسکولوں کو بہتر کر کے ان بچوں کو داخل کراتے ہیں۔
"ہر فٹ بال کی سلائی پر ایک ٹیکس عائد کیا۔ اس طرح بین الاقوامی کمیونٹی کو شریک کیا اور مقامی تاجروں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا اور آج دنیا بھر میں مانا جاتا ہے کہ سیالکوٹ 'چائلڈ لیبر فری' ہے۔ یہ اعلیٰ مثال ہے کمیونٹی کی شراکت داری کی۔"
ایئر سیال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر امین احسن کہتے ہیں کہ ایئر سیال اور سیالکوٹ ایئر پورٹ جیسے منصوبے انہیں اور ان جیسے دیگر کاروباری افراد کو بہت سی نئی چیزیں سکھاتے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان میں ایئر سیال پہلی ایئر لائن ہے جو ڈیجیٹل انجینئرنگ کا آغاز کر رہی ہے۔ پہلے دن سے ہی ہماری انجینئرنگ سافٹ ویئر کے ذریعے کنٹرول ہو گی۔ فلائٹ آپریشن ڈیپارٹمنٹ کو بھی ڈیجیٹلائز کر رہے ہیں۔ اسی طرح سیفٹی کی تربیت بھی کرائیں گے۔ یہ سب اس لیے کر رہے ہیں کہ لوگوں کا اعتماد پاکستان کی اپنی ایئر لائنز پر بحال ہو اور ہم زرِمبادلہ بچا سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر ان کی ایئر لائن سے کوئی میت لے جانا چاہے گا تو وہ اسے مفت لے کر جائیں گے اور ڈیڈ باڈی کے ساتھ ایک مسافر کو مفت بھی ٹکٹ دیں گے اور یہ سہولت تمام شہروں کے لیے ہو گی۔