پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال اور اس سے ملحقہ کئی علاقوں میں زیتون کے درخت بڑی تعداد میں کاشت کیے جا رہے ہیں۔ مقامی کسان جو پہلے اپنی زمین پر مختلف سبزیاں اور پھل اگاتے تھے اب زیتون کاشت کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
پاکستان ميں زیتون کی کاشت سے متعلق باقاعدہ تحقیق چکوال کے بارانی زرعی تحقيقاتی ادارے نے 1991 میں شروع کی تھی۔
پنجاب کے ضلع چکوال ميں جنگلی زیتون بڑی تعداد ميں موجود تھے جس سے يہ ثابت ہوتا تھا کہ اس علاقے کی آب و ہوا زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔
اب چکوال اور اس سے ملحقہ کئی علاقوں میں زیتون کی کاشت کو کاروبار کی شکل دے دی گئی ہے۔ مقامی کسان اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
يوسف شاہ پيشے کے لحاظ سے زميندار ہيں۔ وہ ضلع چکوال کے علاقے کلر کہار سے تعلق رکھتے ہیں۔ 52 سالہ يوسف شاہ 100 ايکڑ زمين کے مالک ہيں جن پر وہ گزشتہ کئی برس سے مختلف پھل اور سبزياں اگاتے تھے۔ ليکن سبزیوں اور پھلوں سے اچھا منافع حاصل نہ ہونے کے سبب انہوں نے اپنی زمين پر زيتون اگانے کا فيصلہ کيا۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے یوسف شاہ نے بتايا کہ انہوں نے ابتدائی طور پر زیتون کے 340 پودے لگائے تھے اور جب ان کا نتيجہ اچھا نکلا تو اپنی پوری زمین پر زيتون کاشت کرنا شروع کر دی۔
یوسف شاہ نے اب اپنی 100 ايکڑ زمين پر اب ساڑھے پندرہ ہزار زیتون کے پودے لگائے ہوئے ہيں جن سے حاصل ہونے والے زیتون سے وہ تیل نکالتے ہیں۔
رواں سال انہیں باغات سے ساڑھے تين ٹن زیتون کا تيل حاصل ہوا ہے۔
يوسف شاہ کے مطابق ان کے باغات کے زیتون کا تیل چونکہ اعلیٰ معیار کا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ مارکيٹ ميں تين سے چار ہزار روپے فی لیٹر کے درمیان فروخت ہو جاتا ہے۔
ان کے بقول کہ زيتون کی سب سے اچھی بات يہ ہے کہ اس کی کاشت ہر طرح کی زمين پر کی جا سکتی ہے۔ زیتون کی کاشت کے لیے زمين ہموار کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ جس علاقے سے آپ کچھ بھی نہیں کما سکتے، اسی جگہ اگر آپ زیتون کاشت کریں تو لاکھوں روپے حاصل ہو سکتے ہیں۔
يوسف شاہ کو ديکھ کر چکوال میں اب بہت سے دیگر کسانوں نے بھی زيتون کی کاشت شروع کر دی ہے۔
کاشت کاروں کے مطابق زیتون کی فی ایکڑ کاشت پر 30 سے 50 ہزار کے درمیان خرچہ آتا ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں زیتون کی زیادہ ديکھ بھال بھی نہیں کرنی پڑتی جب کہ اس کا درخت برسوں پھل ديتا ہے۔
ڈاکٹرمحمد عظيم طارق چکوال کے بارانی زرعی تحقيقاتی ادارے ميں بطور ڈائريکٹر تعينات ہيں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عظیم نے بتايا کہ زیتون کا درخت صديوں پھل ديتا ہے جب کہ يہ کمزور، بنجر، ريتلی، پہاڑی اور تقریباً ہر طرح کی زمين پر باآسانی لگايا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول زیتون کا پودا موسمياتی تبديليوں کے حوالے سے بھی کافی مفید ہے کيوں کہ دوسرے پودوں کی نسبت اس ميں کاربن جذب کرنے کی صلاحيت بہت زيادہ ہے۔
ڈاکٹر عظيم کے مطابق زیتون پر تحقیق کے دوران باہر سے درآمد شدہ پودوں پر مختلف تجربات کیے گئے جو کئی برسوں تک کیے جاتے رہے۔ جس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اس کی کونسی قسم اچار کے لیے موزوں ہے اور کس قسم سے بہترین خوردنی تیل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ علاقوں کے حوالے سے بھی تحقیق کی گئی کہ زیتون کی کون سی قسم کس علاقے میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر عظيم کے مطابق اس کاميابی کے بعد حکومتِ پنجاب کے تعاون سے 2015 اور 2016 ميں ايک پروجيکٹ شروع کيا گيا جس کے ذريعے تجارتی پيمانے پر زيتون کی کاشت کا آغاز کيا گيا۔ اس پروجيکٹ کے تحت 15 ہزار ايکڑ زمین پر زیتون کے پودوں کی کاشت ہونا ہے جب کہ اب تک آٹھ ہزار ايکڑ زمین پر زيتون کے باغات اگائے جا چکے ہيں۔
انہوں نے بتایا کہ تعداد کے لحاظ سے اب تک 10 لاکھ 69 ہزار سے زائد زیتون کے پودے اور 749 چھوٹے بڑے باغات اگائے جا چکے ہيں جو اس خطے کے لیے بہت بڑی تبديلی ہے۔ ڈاکٹر عظیم کے بقول جو پودے اس پروجیکٹ کے آغاز میں لگائے گئے تھے ان میں سے بیشتر پر اب پھل آنا شروع ہو گئے ہيں۔
ڈاکٹر عظيم کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے علاقے ميں نئی فصل متعارف کرانے سے قبل کسانوں کو ہر طرح کی تربيت فراہم کی تھی اور انہیں وہ طریقے سکھائے تھے جن سے اچھا پھل حاصل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقامی کسانوں میں زیتون کی کاشت کی بڑھتی دلچسپی کے پيشِ نظر حکومتِ پنجاب کے تعاون سے زيتون کا تيل نکالنے والی مشینیں بھی منگوائی گئیں جو اٹلی سے درآمد کی گئی تھیں۔ ان مشینوں کے ذریعے 600 کلو زيتون ایک گھنٹے میں کرش کیے جاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر عظیم طارق کے مطابق ان کے ادارے نے 2017 سے 2018 کے دوران تقریباً 43 ہزار ٹن زيتون کسانوں کو کرش (وہ عمل جس کے ذریعے زیتون کا تیل نکالا جاتا ہے) کر کے ديے تھے جب کہ اس سال اب تک 45 ہزار ٹن زيتون کرش کیے جا چکے ہیں۔ اميد ہے کہ سيزن کے اختتام تک يہ تعداد 50 ہزار ٹن تک پہنچ جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ کسانوں کو يہ سہولت حکومت نے بالکل مفت فراہم کی ہے۔ تاکہ ان کے پھل بھی سنبھالے جا سکیں اور ان کی آمدن کا ذريعہ بھی بن جائے۔
ڈاکٹر عظيم نے کہا کہ اس وقت ان کے پاس تقریباً 83 اقسام کے زیتون ہيں اور ان کے ادارے نے زیتون کی دو نئی اقسام بھی تيار کی ہيں۔
ڈاکٹر عظیم نے کہا کہ پاکستان کا امپورٹ بل، پيٹروليم کے بعد سب سے زيادہ خوردنی تيل کا ہے، جو تقریباً 300 ارب ڈالر سالانہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زيتون کی کوئی بھی چيز ضائع نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر عظیم کے بقول زیتون خوردنی تیل حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے پھل کا اچار، مربّہ اور شربت بھی بنتا ہے جب کہ یہ بيکری کی مختلف چیزوں ميں بھی استعمال ہوتا ہے۔