امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملے کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے امریکہ اور ان ملکوں کے لوگوں کے درمیان، جہاں مسلمانوں کی نمایاں تعداد موجود ہے، افہام تفہیم کی راہ ہموار کرنے کے لیے مختلف پروگرام شروع کیے جن میں سے ایک یوتھ ایکس چینج اینڈ اسٹڈی پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے تحت ان ملکوں سے 15 سے17 سال کی عمروں کے طالب علموں کو امریکی ہائی اسکولوں میں ایک سال کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے جس دوران وہ امریکی میزبان گھرانوں کے ساتھ ان کے گھر کے فرد کی طرح رہتے ہیں اور امریکی لوگوں، امریکی ثقافت اور امریکی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں اور اپنی ثقافت کے بارے میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو براہ راست معلومات فراہم کرتے ہیں۔ پھر ایک سال کے بعد اپنے ملک واپس جا کر وہ امریکی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق پاکستان کے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں۔
گذشتہ دنوں یوتھ ایکس چینج اینڈ اسٹڈی پروگرام کے تحت امریکی ہائی اسکولوں میں ایک تعلیمی سال گذارنے والے پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمان ملکوں کے طالب علموں کے ایک گروپ نے وائس آف امریکہ کا دورہ کیا۔ اس گروپ میں شامل دو پاکستانی طالبات، اسلام آباد کی اسریٰ نسیم چیمہ اور کھیوڑہ پاکستان کی جانیس گوندل اور دیناج پور بنگلہ دیش کی ایک طالبہ اشیکا اگڑوال نے ہر دم رواں ہے زندگی میں شرکت کی اور اس پروگرام اور امریکہ میں پیش آنے والے اپنے منفرد تجربات پر بات کی۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی اسری نسیم چیمہ نے بتایا کہ اس سال پاکستان سے 75 طالب علم اس پروگرام کے تحت منتخب ہو کر امریکہ آئے ہیں اور مختلف ریاستوں کے ہائی اسکولوں میں ایک تعلیمی سال گذارنے کا موقع حاصل کر رہے ہیں۔ اس پروگرام میں شامل ہونے کا طریقہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے لیے ملک بھر کے ہائی اسکولوں کے ہزاروں طالب علم تحریری ٹیسٹ اور انٹر ویو کے مرحلے سے گذرتے ہیں جس کے بعد ان میں سے ایک بہترین نمائندہ گروپ کا انتخاب کر کے امریکی ہائی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
کھیوڑہ سے تعلق رکھنے والی جانیس گوندل نے ایکس چینج پروگرام کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ پروگرام انہیں امریکی زندگی کو قریب سے دیکھنے اور انہیں اپنی ان صلاحیتوں کو آزمانے کا موقع فراہم کر رہا ہے جنہیں وہ پاکستان میں رہتے ہوئے شاید اس خوبی سے استعمال نہ کر پاتیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ یہاں کسی سے ملتی ہیں تو وہ انہیں جانیس گوندل نہیں بلکہ پاکستان کے طور پر پرکھتے ہیں اس لیے وہ یہاں گویا پاکستان کے ایک سفیر کی طرح کام کر رہی ہیں۔ وہ امریکی لوگوں کے سامنے پاکستان کی ایک درست اور مثبت تصویر پیش کر رہی ہیں اور وہ غلط فہمیاں یا وہ غلط تاثر جو پاکستان اور اس کے لوگوں کے بارے میں یہاں امریکہ میں موجود ہے اسے دور کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کا رشتہ مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اشیکا اگڑ وال نے کہا کہ یہ سال انہیں بہت کچھ سکھا رہا ہے اور اس دوران انہیں کچھ مسائل بھی پیش آ رہے ہیں لیکن وہ تحمل اور برداشت سے کام لے کر ان مسائل کو حل کرنا سیکھ رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہاں امریکی ثقافت اور امریکی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کر رہی ہیں، اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بنگلہ کلچر سے بھی متعارف کرا رہی ہیں۔
مہمان طالبات کا کہنا تھا کہ یوتھ ایکس چینج پروگرام کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ دنیا کو قریب لانے کا ایک ذریعہ بن رہا ہے۔
انہوں نےپاکستان کے سبھی والدین پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کو اس قسم کے پروگراموں میں شرکت کی اجازت دیں جوان کی زندگی میں بہت سی کامیابیوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔
تینوں مہمان طالبات نے اپنے میزبان امریکی گھرانوں کا شکریہ ادا کیا جو پاکستان سے آنے والے 15 سے17 سال کی عمروں کے ان طالب علموں کے لیے اپنے گھر اور اپنے دل کے دروازے کھولتے ہیں اور انہیں ایک ایسا پر سکون اور خوشگوار ماحول فراہم کرتے ہیں جو ان کی زندگی کے اس تعلیمی سال کو ان کی زندگی کا بہترین اور سب سے یاد گار سال بنا دیتا ہے۔