یمن میں ایک مظاہرے کے شرکاء پر حکومت کے حامیوں کے پتھرائو سے کم از کم 22 خواتین زخمی ہوگئی ہیں۔
طبی عملے اور سیاسی کارکنان کے مطابق واقعہ گزشتہ روز جنوبی شہر تعز میں پیش آیا تھا جہاں یمنی خواتین کا ایک گروہ صدر علی عبداللہ صالح سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے اور یمنی حزبِ مخالف کی خاتون سیاسی کارکن توکل کرمان کو رواں برس امن کا 'نوبیل' انعام دیے جانے کے اعلان پر جشن منانے کے لیے جمع ہوا تھا۔
کرمان کو یہ ایوارڈ یمن میں قیامِ امن اور ملک میں حقوقِ نسواں کے حصول کی جدوجہد کی قیادت کرنے کے اعتراف میں دیا گیا ہے اور وہ یہ اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کرنے والی عرب دنیا کی پہلی خاتون بن گئی ہیں۔
کرمان نے اس اعزاز کو گزشتہ 33 برسوں سے برسرِ اقتدار صدر صالح کی اقتدار سے بے دخلی کے لیے یمن میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کی ایک کامیابی قرار دیا ہے۔
اس سے قبل صدر صالح نے ہفتہ کو کہا تھا کہ وہ "آنے والے ایام میں" اقتدار چھوڑنے کو تیار ہیں، تاہم وہ کئی بار 'خلیج تعاون کونسل' کی جانب پیش کردہ ایک مجوزے منصوبے پر دستخط سے انکار کرچکے ہیں جس میں ان سے اقتدار اپنے کسی نائب کو سونپنے کا کہا گیا ہے۔
ادھر عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اتوار کی شب اور پیر کی صبح یمنی حکومت کے فوجی دستوں اور حکومت مخالف قبائلی جنگجووں کے مابین تعز کے ارد گرد جھڑپیں ہوئی ہیں۔
دریں اثنا القاعدہ کی یمنی شاخ نے گزشتہ ماہ کیے گئے ایک امریکی ڈرون حملے میں اپنے امریکی نژاد رہنما کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔
پیر کو مختلف اسلامی ویب سائٹس پر جاری کیے گئے ایک بیان میں 'القاعدہ اِن عریبین پینی سولا' نے اپنے مبلغ رہنما انورالعوالقی کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے اس کا "بدلہ جلد" لینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق انہیں انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل العوالقی حالیہ برسوں کے دوران امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی کئی کوششوں میں ملوث شدت پسندوں کو قائل کرنے اور انہیں بھرتی کرنے کا ذمہ دار تھا۔
امریکہ میں پیدا ہونے والے العوالقی نے یمن منتقل ہونے کے بعد انٹرنیٹ کے ذریعے شدت پسندی کی تبلیغ شروع کردی تھی اور اس کے بیانات کی ریکارڈنگ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے قدامت پسند افراد میں خاصی مقبول رہی۔
شدت پسند تنظیم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ "دنیا بھر میں پھیلے ہوئے العوالقی کے شاگرد ان کے راستے اور نقشِ قدم" پر چلیں گے۔