چینی صدر شی جن پنگ شمالی کوریا کے دو روزہ دورے پر جمعرات کے روز پیونگ ینگ پہنچ رہے ہیں۔
شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان گزشتہ 15 مہینوں میں چار مرتبہ چین کا سرکاری دورہ کر چکے ہیں۔ تاہم چینی صدر شی جن پنگ کا یہ شمالی کوریا کا پہلا دورہ ہو گا۔
اس دورے کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ گزشتہ 14 سال کے دوران کسی بھی چینی صدر کا شمالی کوریا کا پہلا دورہ ہو گا۔
شمالی کوریا کی طرف سے جوہری تجربات کے بعد چین نے اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے خلاف سخت پابندیاں لگانے کے حق میں ووٹ دیا تھا جس سے چین اور شمالی کوریا کے دو طرفہ تعلقات قدرے پیچیدگی کا شکار ہو گئے تھے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے فیلو ایوینز رویئر کہتے ہیں کہ صدر شی کے اچانک دورے سے دو طرفہ تعلقات میں زیادہ بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ چین نے اس اعلیٰ ترین سطح کے دورے کے لیے یقینی طور پر کچھ پیشگی شرائط عائد کی ہوں گی جن میں جوہری ہتھیاروں اور میزائلوں کے تجربات کی مکمل بندش شامل ہو سکتی ہے۔
تاہم رویئرز کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے لیڈر کم، چینی صدر کے ذریعے امریکی صدر ٹرمپ کو کچھ یقین دہانیاں کرا سکتے ہیں۔ البتہ اس بات کا امکان کم ہے کہ صدر شی امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان بالواسطہ رابطے کا کردار ادا کریں گے کیونکہ بقول ان کے شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان براہ راست رابطے پہلے سے موجود ہیں۔
صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کے درمیان آخری ملاقات گزشتہ فروری میں ویت نام کے دارالحکومت ہنوئی میں ہوئی تھی جو بغیر کسی سمجھوتے کے ختم ہو گئی تھی۔ تاہم کچھ تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ چینی صدر شی کے شمالی کوریا کے مجوزہ دورے سے امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان مزید رابطوں کی فضا ہموار ہو سکتی ہے۔
چینی صدر کا شمالی کوریا کا یہ دورہ 28 جون کو جاپان کے شہر اوساکا میں ہونے والے G-20 سربراہ اجلاس سے چند روز قبل ہو رہا ہے اور صدر ٹرمپ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ G-20 سربراہ اجلاس کے موقع پر وہ چینی صدر کے ساتھ براہ راست ملاقات کریں گے۔
بیجنگ کی رین من یونیورسٹی میں شمالی کوریائی امور کے ماہر چینگ شیاؤہے کا کہنا ہے کہ چینی صدر امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران شمالی کوریا کے لیڈر کی طرف سے امریکہ۔شمالی کوریا رابطے دوبارہ شروع کرنے سے متعلق تجاویز پیش کر سکتے ہیں اور یہ چین۔ امریکہ تجارتی کشیدگی کے تناظر میں صدر ٹرمپ کے لیے ایک شاندار تحفہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس ملاقات سے ہانگ کانگ میں جاری احتجاجی مظاہروں سے توجہ ہٹانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کہ چکے ہیں کہ G-20 اجلاس کے موقع پر صدر ٹرمپ چینی صدر شی سے ملاقات کے دوران ہانگ کانگ میں ہونے والے مظاہروں کا مسئلہ بھی اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تاہم کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چینی صدر شی اور صدر ٹرمپ کے درمیان ملاقات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی سمجھوتہ طے نہ ہونے کی صورت میں صدر ٹرمپ چینی برآمدات پر مزید325 ارب ڈالر کے محصولات عائد کر دیں گے۔