دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ہفتے کو بدعنوانی کے خلاف شعو ر آگاہی کو اجاگر کرنے کا عالمی دنیا منایاگیا۔
اس موقع پر صدر پاکستان ممنون حسین نے ایک پیغام میں ملک میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بدعنوانی سے پاک معاشر ے کا قیام اسی صورت ممکن ہے جب معاشرتی برائیوں کی وجوہات کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر ان کے تدارک کے لیے کام کیا جائے۔
پاکستان میں یہ دن ایک ایسے وقت منایا جارہا ہے کہ جب ملک کے سیاستدانوں کی اکثریت ایک دوسرے کے خلاف بدعنوانی کے الزمات عائد کر رہی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ ملک کے سیاستدانوں کی اکثریت بدعنوان ہیں۔
تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ تمام سیاستدان ایسے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف ایسے الزامات عائد کرنے کی وجہ سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں۔
سیاسی امور کے تجزیہ کار احمد بلال محبوب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " مسئلہ یہ ہے چند لوگ ہوتے ہیں اور ان کے (بدعنوانی کے ) کیس مشہور ہو جاتے ہیں اور میڈیا میں بھی ان کے نام بہت اچھالے جاتے ہیں اور اس سے یہ تاثر بنتا ہے کہ ساستدانوں کی اکثریت بدعنوان ہے یا بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کر رہی ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے چند لوگ ہوںگےاور معاشر ے کے دوسرے طبقات میں بھی ایسے لوگ ہیں۔"
دوسری طرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف نے کہا کہ ملک میں سیاستدانوں کو بدعنوانی کے نام پر سیاسی مقاصد کے لیے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
ان کے بقول ملک میں بدعنوانی سمیت دیگر چیلنجوں سے نمٹنے لیے ملک کے تمام طبقات بشمول پارلیمان، ساستدانوں، اعلیٰعدلیہ، انتظامیہ اور جرنیلوں کو مل کر کام ایک معاہدہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ " جس کا سب سے پہلے نکتہ یہ ہوگا کہ پاکستان کے عظیم تر مفاد کے لیے کچھ بھی ہو جائے ہم اکھٹے ہیں ۔۔جس میں بدعنوانی کو کنٹرول کرنے کے سخت ترین شفاف قوانین بنائیں جس میں یہ نا ہو کہ (سابق صدر) مشرف دور کےنیب (انسداد بدعنوانی کا قومی ادارہ) کی طرح نا ہو جو سیاسی مخالفین کو پکڑنے کے لیے استعمال ہو۔"
لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے اس وقت سوال یہ ہے کہبدعنوانی کے مسئلے سے کیسا نمٹا جائے ، احتساب کےعمل کو سیاسی محرک کے بغیر کیسے عمل میں لایا جا سکتا ہے ان کے بقولاس کے لیے ایک توزان چاہیے اورجمہوریت یہ توازان فراہم کرتی ہے۔
تجزیہ کار احمد بلال نے کہا کہ بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے بتدریج پائیدار بنیادوں پر کوشش کی ضرورت ہے۔
" جب حکمرانی کا نظام بہتر ہو گا اور لوگوں کے صوابدیدی اختیارات ختم ہو ں گے، لوگ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہو جائیںگے تو پھر بدعنوانی کے مسئلہ سے نمٹنے میں وقت کے ساتھ بہتری آئے گی “
انہوں نے کہا کہ بدعنوانی سے نمٹنا ایک ارتقائی عمل کے تحت ہی ممکن ہے جس میں جمہوری روایات کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کر کے انتظامیہ اور دیگر اداورں کے طریقہ کار میں شفافیت کو یقنی بنانا بھی ضروری ہے۔