|
سرینگر -- بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری کے علاقے بڈھال میں پراسرار بیماری کے باعث ہلاکتوں کی تعداد 17 ہو گئی ہے جن میں تین سے 15 برس کے 13 بچے بھی شامل ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ اب بھی کئی افراد راجوری، جموں اور چندی گڑھ کے اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
جان کی بازی ہارنے والوں اور بیمار افراد کے رشتے داروں اور ان کے رابطے میں آنے والے دیگر افراد سمیت 300 سے زائد لوگوں کو بڈھال سے55کلو میٹر دور ضلع صدر مقام راجوری میں قائم کیے گیے قرنطینہ مراکز پر منتقل کردیا گیا ہے۔
بڈھال اور اس کے قر ب و جوارکو' آلودہ زون' قرار دیا گیا ہے۔
متعدی بیماری کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامیہ نے کئی سخت گیر اقدامات اٹھائے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کے گھروں کو سیل کردیا گیا ہےاور مرنے والوں کے گھروں میں داخلے پر مکمل پابندی لگادی گئی ہے۔
قرنطینہ مراکز پر ہلاک شدگان اور بیمار افراد کے ساتھ رابطے میں رہنے والے خاندانوں کی مسلسل نگرانی کی جارہی ہے۔
راجوری کے ڈپٹی کمشنر ابھیشیک شرما کہتے ہیں کہ متعدی بیماری کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ بڈھال کو تین الگ الگ ' کنٹینمنٹ زونز' میں تقسیم کردیا گیا ہے اور لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے بھارت میں 2023سے نافذ بھارتیہ ناگرک سرکشا سنہتا کی دفعہ 163کے تحت علاقے میں نگرانی کے جامع اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔
ابھیشیک شرما کے بقول اس قانون کے تحت انتظامیہ کو کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے خصوصی اختیارات حاصل ہیں۔
اس سے پہلے بڈھال کے ایک تالا ب کے پانی کی جانچ کے دوران اس میں کیڑے مار دوا پائی گئی تھی جس کے بعد اس تالاب کو سیل کردیا گیا تھا ۔ لیکن طبی ماہرین نے اس کی وجہ سے اموات کے امکان کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔
اگرچہ طبی ماہرین کی خصوصی ٹیمیں گزشتہ دو ہفتوں سےبڈھال میں موجود ہیں اور جموں و کشمیر پولیس کی ایک خصوصی تفتیشی ٹیم بھی کام پر لگی ہوئی ہے سرکاری طور پر اس بیماری کا نام معلوم ہے اورنہ ابھی تک یہ پتا لگایا جاسکا ہے کہ اس کے پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد میں تیز بخار ،اسہال اور پھر بےہوشی کی کیفیات پیدا ہوئیں۔
طبی ماہرین کے مطابق جتنے بھی افراد اس بیماری میں مبتلا ہوکر جان کی بازی ہار گئے۔ ان کے دماغ اور اعصابی نظام بری طرح متاثر ہوئے تھے۔
اموات کا یہ سلسلہ سات دسمبر کو فضل حسین نامی ایک شہری کے گھر سے شروع ہوا تھا ۔ پہلے ان کے چار بچوں کی اموات ہوئیں اور پھر وہ خود بھی جان کی بازی ہار گئے۔
ایک اور شہری محمد اسلم نے اب تک اپنے چھ بچوں اور ماموں اور ممانی کو جو بے اولاد تھے اور انہوں نے محمد اسلم کو گود لیا تھا کھودیا ہے۔ محمد اسلم کے پڑوسی محمد رفیق کی بیوی اور تین بچے 12دسمبر کو جان کی بازی ہار گئے۔
جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر اشتوش گپتا نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہاں کے اسپتال میں داخل کرائی گئی تین لڑکیوں میں سے ایک کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔
ایک اور مریض اعجاز احمد کو چندی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ انسٹی چیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پی جی آئی) منتقل کردیا گیا ہے جہاں اُن کی حالت میں بہتری کی اطلاع ملی ہے۔
پراسرار بیماری کے پھوٹ پڑنے اور اس کی لپیٹ میں آنےوالوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کے نتیجے میں اس پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا گیا ہے۔
علاقہ مکین نقل مکانی پر مجبور
راجوری اور ہمسایہ ضلع پونچھ جن کی سرحدیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے ملتی ہیں کے لوگ خاصے پریشان ہیں۔
راجوری کے ایک شہری محمد عمر بڈھانہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بڈھال اور اس کے ملحقہ دیہات کے کئی کنبے نقلِ مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "خود میرے گھر میں میرا پھوپی زاد بھائی اور اس کے بیوی بچے آکر ٹھہرے ہوئے ہیں حالاں کہ ان کا گاؤں بڈھال سے کوسوں دور ہے۔وہ انتہائی خوف زدہ ہیں۔"
جمعرات کو لوگوں کی ایک بڑی نے راجوری کے گجر منڈی علاقے میں جمع ہوکر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ وہ پراسرار بیماری میں مبتلا ہونے والے سبھی افراد کو راجوری اور جموں کے اسپتالوں سے چندی گڑھ منتقل کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔
میڈیکل ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ
حکمران نیشنل کانفرنس کے ایک مقامی لیڈر اور ممبر جموں و کشمیر اسمبلی جاوید اقبال چودھری نے اس متعدی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنےاور اس سے متاثرہ افراد کوبچانے کے لیےعلاقے میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ کرنےکا مطالبہ کیا ہے۔
یہ معاملہ ایک سیاسی تنازع کی شکل بھی اختیار کرنے لگا ہے۔ حزبِ اختلاف کی بعض جماعتوں نے عمر عبد اللہ حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس بیماری سے وقت پر نمٹنے میں ناکام رہی اور نوبت 17 افراد کی ہلاکت تک پہنچی اور مزید کئی افراد اسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
نئی دہلی میں بر سرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مقامی رہنما طاہر چودھری کہتے ہیں کہ "یہ پراسرار ہلاکتیں سب کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ یہ عمر عبد اللہ حکومت کی بے حسی اور اس بحران جیسی صورتِ حال سے بروقت نمٹنے میں ناکامی کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔"
لیکن وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے اس نکتہ چینی کو بلا جواز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کے سبھی متعلقہ ادارے اس بیماری کی وجہ جاننے اور متاثرین کو موثر طبی امداد فراہم کرنے میں آغاز پر ہی سرگرم ہو گئے تھے۔
وزیر ِ اعلیٰ نے 21جنوری کو بڈھال کے دورے کے دوران ہلاک شدگان کے لواحقین سے مل کر ان کی ڈھارس بندھائی تھی اور انہیں حکومت کی طرف سے ہر ممکن امداد فراہم کرنے کا یقین دلایا تھا۔
جمعرات کو سرینگر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ اس پراسرار بیماری کی وجوہات جاننے کی کوششں تیز کردی گئی ہیں اور بہت جلد حکومت کو جواب مل جائے گا۔
بھارتی وزیرِ داخلہ امت شاہ کی ہدایت پر دہلی سے آئی ہوئی ایک ٹیم نے بھی بڈھال کا دورہ کیا ہے۔ اس ٹیم میں بھارت کے بعض اہم طبی اداروں کے ماہرین بھی شامل تھے جنہوں نے گزشتہ پیر کو بڈھال میں چھ گھنٹے کے قیام کے دوراں کئی نمونے جمع کیے اور متاثرہ خاندانوں سے تفصیلات جمع کیں۔
اس دوران بڈھال سے راجوری میں قائم قرنطینہ مراکز پر منتقل کیے گیے خاندانوں کے پیچھے چھوڑے ہوئے بھیڑ بکریوں اور مویشیوں کی دیکھ بھال کا کام محکمہ حیوانات و بھیڑ پالن کے سپرد کردیا گیا ہے۔
فورم