پاکستانی فوج کے سابق افسران کی ایک تنظیم نے مجوزہ قومی احتساب کمیشن کے دائرہ کار سے فوج کے اعلیٰ عہدیداروں اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو باہر رکھنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پارلیمان سے ہر کسی کے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بات ایکس سروس مین لیگل فورم کے راولپنڈی میں ہونے والے ایک اجلاس میں منظور کی جانے والی ایک قرارداد میں کہی گئی ہے۔
قرارداد کے مطابق فوج اور عدلیہ کو احتساب سے متعلق قوانین کے تابع نا کرنا انصاف کے تقاضوں کی خلاف ورزی ہے اور یہ قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کرنے والے کسی بھی معاشرے میں روا نہیں ہے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح فوج اور اعلیٰ عدلیہ قانون سے بالاتر نہیں ہیں اور اب وقت آگیا ہے ہر کوئی جو بدعنوانی میں ملوث پایا جائے اس کا احتساب ہو۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے پارلیمانی جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ احتساب کے نئے مجوزہ قانون کا اطلاق فوج اور عدلیہ پر نہیں ہو گا۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور وکیل کامران عارف نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں بھی سرکاری وسائل کا سوال ہے وہاں احتساب ہونا چاہیے اور کس ادارے کا کہاں احتساب ہونا چاہیے اس بات کا تعین پارلیمان ہی کو کرنا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ احتساب کے عمل میں اگر اسی ادارے کے لوگ شامل ہوں گے تو احتساب کا عمل شفاف نہیں ہوگا۔
کامران عارف نے فوج میں احتساب کےعمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ " فوج کا معاملہ تھوڑا سا مختلف ہے اور میں یہ کہنا چاہوں گا اگر آپ باقی اداروں کا خاص طور پر احتساب کرنا چاہتے ہیں اس کے بھی طریقے ہیں اس کو کسی ایک ادارے پر نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ ایک مناسب ضابطہ کار ہو اور وہ قابل عمل بھی ہو اور آزاد بھی ہو۔"
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ ملک میں احتساب کے عمل کو چیک اور بیلنس سسٹم کے تحت یقنی بنایا جا تا ہے۔
" ملک کے اندر اُس وقت اعتماد کی فضا پیدا ہوگی جب سب کا احتساب ہو گا کہ جب سب کو یہ یقین ہو گا کہ اگر میں غلطی کروں گا تو میں پکڑا جاؤں گا اگر میرا ادارہ کچھ نہیں کرے گا تو دوسرا ادارہ میرا احتساب کرے جیسا کہ سیاست دانوں کا احتساب سیاستدانوں نے نہیں کیا ہے تو دوسرے ادارے ان کا احتساب کر رہے ہیں اسی طرح اگر کوئیفوجی یا جج کوئی (غلطی) کرے تو اس پر بھی کسی دوسرے ادارے کو احتساب کا حق ہونا چاہیے۔"
آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت اگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے کسی جج کو قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کے الزام کا سامنا ہو تو یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جاتا ہے تاہم 1973 ء کے بعد سے آج تک سپریم جوڈیشل کونسل نے کسی جج کے خلاف کارروائی نہیں کی۔