خیبرپختونخوا کے شمالی پہاڑی ضلع دیر بالا کی سیاسی اور جمہوری تاریخ میں پہلی بار خواتین نے ووٹ کا حق ایک روز قبل مختلف بلدیاتی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے موقع پر استعمال کیا۔
دیر بالا کے لگ بھگ چار نشستوں پر پہلی بار ضمنی انتخابات21 دسمبر 2017 کو ہوئے تھے مگر علاقے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت عورتوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے الیکشن کمشن نے سول سوسائٹی تنظیموں اور لوگوں کے مطالبے پر انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
دیر بالا سمیت خیبرپختونخوا کے دیر زیریں کو بھی عرصہ دارز سے جماعت اسلامی پاکستان کا ایک مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر ان اضلاع میں خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے میں جماعت اسلامی غیر اعلانیہ طورپر پیش پیش ہوتی ہے۔
ایک روز قبل 29 مارچ کو تحصيل کی ایک نشست سمیت مختلف بلدیاتی اداروں کی نشستوں پر خزب اختلاف میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے زیادہ تر امید وار کامیاب ہو گئے تاہم دیر بالا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حمایت بھی حاصل تھی۔
مگر پاکستان پیپلز پارٹی خیبرپختونخوا کے سیکرٹری اطلاعات اور رکن سینٹ روبینہ خالد نے ضمنی انتخابات میں اپنی پارٹی کے امیدواروں کی کامیابی اور جماعت اسلامی کی ناکامی کو انتخابی عمل میں خواتین کے حصہ لینے کی مرہون منت قرار دیا ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف اور عوام نیشنل پارٹی کے راہنما اور عہدیدار بھی خواتین کے انتخابی عمل میں شریک ہونے پر خوش دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی میں دیر کے دونوں اضلاع کے انتخابی عمل میں خواتین کا حصہ لینا نہ ہونے کے برابر تھا۔ اسی بنیاد پر2015 کو جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق کے ممبر سینیٹ منتخب ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کی نشست پر ہونے والی ضمنی انتخابات کا نتیجہ کئی مہینوں تک نا مکمل رہا تھا۔