رسائی کے لنکس

داعش پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو کیوں نشانہ بنا رہی ہے؟


پشاور کی کارخانو مارکیٹ میں اوتار سنگھ (فرضی نام) کاسمیٹکس کا کاروبار کرنے والے ایک سکھ تاجرہیں جو شہر میں سکھ کمیونٹی کے افراد کی حالیہ ٹارگٹ کلنگ کےواقعات میں اضافے پر پریشان ہیں۔

سکھ کمیونٹی کے خلاف حملوں کا تازہ ترین واقعہ 24 جون کو یکہ توت کےعلاقے گلدرہ میں پیش آیا، جب 30 سالہ سکھ تاجر منموہن سنگھ نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بنے۔اس سے ایک روز قبل پشاور شہر میں ہی رشید گڑھی میں ایک دوسرے سکھ تاجر ترلوگ سنگھ پر فائرنگ کی گئی تھی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے تھے۔

شدت پسند تنظیم داعش کی خراساں شاخ نے ان دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جب کہ خیبرپختونخواپولیس کے سربراہ اختر حیات خان کے مطابق رواں سال پشاور میں سکھ کمیونٹی پر تین حملے ہو چکے ہیں۔

ماضی میں کالعدم پاکستانی شدت پسند تنظیموں بالخصوص تحریک طالبان پاکستان اورسابق قبائلی ضلع خیبر میں فعال شدت پسند کمانڈر منگل باغ کی تنظیم لشکر اسلام سکھ کمیونٹی پر حملے یا اسے ہراساں کرتی رہی ہے مگر یہ سلسلہ کافی عرصے پہلے تھم چکا تھا۔

مگر داعش کی جانب سے سکھ تاجروں کے خلاف کارروائیوں پر کمیونٹی میں تشویش پائی جاتی ہے جس کا اظہار اوتار سنگھ بھی کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اوتار سنگھ نے کہا کہ پاکستان میں آباد سکھ کمیونٹی انتہائی پرامن ہے جوکسی بھی تنازع میں شامل نہیں، اس کے باوجود اب تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ داعش پشاور میں سکھوں کو کیوں نشانہ بنا رہی ہے۔

پاکستان میں داعش کے نشانے پر کون؟

داعش خراساں جہاں افغانستان میں طالبان حکومت کی اہم شخصیات کو نشانہ بناتی ہے، وہاں اس کے برعکس پاکستان میں ان کی سرگرمیاں مختلف ہیں۔

پاکستان میں داعش قانون نافذ کرنے والے اداروں کےساتھ ساتھ شیعہ اور بریلوی مسالک کے افراد سمیت غیرمسلم اقلیتوں خصوصاً سکھ اور مسیحیوں کوبھی نشانہ بنارہی ہے ۔ان کارروائیوں کے لیے شدت پسند تنظیم نے پشاورشہر کا انتخاب کیاہے۔

داعش خراساں نے جون کے اوائل میں ہی پشاور شہر کے علاقے بڈھ بیر میں بریلوی مسلک کی تنظیم کے مفتی احسان الحق اور یکہ توت میں بریلوی مسلک کے مدرسہ معراج القرآن کے قاری محمد رحیم کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

اس سے قبل ماہ اپریل میں شدت پسند تنظیم نے پشاور میں ایک سکھ تاجر سردار دیال سنگھ اور ایک مسیحی شخص کاشف مسیح کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ اسی طرح گزشتہ برس مئی میں پشاور کے علاقے سربند میں دو سکھ تاجروں کو بھی قتل کیا گیا تھا۔

داعش خراساں خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام(فضل) کے مقامی رہنماؤں کو بھی مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔باجوڑ کے علاقے ماموند کے ایک مذہبی رہنما نے بتایاکہ جے یو آئی( ف )کے مقامی رہنماؤں کو افغان طالبان کی حمایت کی وجہ سے قتل کیا جا رہاہے۔

وائس اف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ "15 اگست 2021 کوافغانستان پر قبضے کے بعد جب طالبان نے باجوڑ سے تعلق رکھنے والے حاجی عثمان ترابی کو کنڑ کا گورنربنایا تو اس کے بعد داعش نے عثمان ترابی سے قریبی تعلق رکھنے والے جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کر دی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔"

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 27 جون کو باجوڑ سے داعش کے مقامی کمانڈر شفیع اللہ نامی کمانڈر کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس پر جے یو آئی (ف) کے رہنماؤں کو قتل کرنے کا الزام ہے۔

افغان طالبان سے منسلک پاکستانی شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کےباجوڑ سے مقامی کمانڈر ابوبکر کی قیادت میں شدت پسندوں کا ایک بڑا گروہ چند سال قبل داعش میں شامل ہواتھا۔

داعش چیلنج ضرور ہے لیکن بڑی رکاوٹ نہیں: افغان طالبان
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:54 0:00

مذہبی اقلیتیں اورمخالف فرقے نشانہ کیوں ؟

اسلام آباد میں 'دی خراساں ڈائری' نامی تحقیقی ادارے سے وابستہ اطالوی محقق والے ریکارڈو کہتے ہیں داعش خراساں کے پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ نوعیت کے حملے عالمی اثرات کے ساتھ ساتھ خطے میں پیش آنے والے واقعات سے جڑے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے والے ریکارڈو نے کہا کہ "داعش خراساں کا مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں کا جواز پیش کیا جانے والا بیانیہ دراصل عراق اور شام میں داعش کی مرکزی تنظیم کی فرقہ وارانہ جنگ کا براہِ راست نتیجہ ہے۔ البتہ داعش خراساں نے اس بیانیے کو جنوبی ایشیا کے تناظر میں مقامی سطح پر ڈھالا ہے۔"

ان کے بقول، " داعش خراساں غیرمسلم اقلیتوں اوردیگر اسلامی فرقوں کو اپنے اہم دشمنوں یعنی افغان طالبان، پاکستان، بھارت اور ایران، کے 'پانچویں ستون' کے طورپر دیکھتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہناہے کہ داعش خراساں مذہبی اقلیتوں پر ایسے حملوں کے ذریعے فرقہ وارانہ تشدد کے حامل عناصر کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے کوشش کرتی ہے جب کہ داعش خراساں کے سربراہ شہاب المہاجر نے اسے تنظیم کی حکمتِ عملی کا لازمی حصہ قرار دیاہے۔

کثیرالاقومی شدت پسند تنظیموں پر کام کرنے والے اسلام آباد میں ایک انٹیلی جینس افسر کا کہناہے کہ جب مذہبی اقلیتیں نشانہ ہوتی ہیں تو یہ عالمی طور پر ایک خبر بنتی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو نشانہ بنانا بھی اسی قسم کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔

نام شائع نہ کرنے کی شرط پرانہوں نے وائس اف امریکہ کو بتایاکہ داعش پاکستان میں سکھ اورمسیحی کمیونٹیز کے ساتھ ساتھ شیعہ اور بریلوی مکتبۂ فکر کے مسسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

انہوں نے حالیہ مثال دیتے ہوئے کہا کہ داعش پاکستان شاخ نے مستونگ میں ماہ اپریل میں تعویز گنڈے کرنے والے ایک بریلوی کو 'جادوگر'قرار دے کر ہلاک کیے جانے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

پاکستان میں داعش

داعش کی مرکزی تنظیم نے پاکستان اور افغانستان کے لیے خراساں کے نام سے گروپ 2015 میں تشکیل دیا تھا۔

پاکستان میں داعش کو پہلے مرحلے میں اس وقت کامیابی حاصل ہوئی تھی جب ٹی ٹی پی، لشکرِ جھنگوی اور لشکر جهنگوی العالمی کے کچھ کمانڈروں نے اپنے ساتھیوں سمیت با ضابطه طور پر داعش کے رہنما ابوبکر البغدادی کی بیعت کی تھی جب کہ افغانستان میں افغان طالبان سے الگ ہونے والے رہنماؤں اورافغانستان میں روپوش ٹی ٹی پی کے سابقہ رہنماؤں نے بھی داعش خراسان کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی۔

سال 2019 میں داعش نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے پاکستان کے لیے 'ولایت پاکستان‘ کے نام سے نئی شاخ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔البتہ شدت پسند تنظیم کی مرکزی قیادت نے کچھ ہی عرصے بعد داعش پاکستان سے خیبرپختونخوا صوبے کو علیحدہ کرکے دوبارہ داعش خراساں کا حصہ بنادیا تھا۔


اسلام آباد میں تعینات انٹیلی جینس افسر کے بقول، " القاعدہ یا القاعدہ البرصغیر" کی طرح داعش پاکستان بھی کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں رکھتی اورالقاعدہ کی ہی طرز پر چھوٹے چھوٹے سیلوں میں کام کرتی ہے جس کی وجہ سے ان کی واضح موجودگی محسوس نہیں کی جاری ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں فعال شدت پسند تنظیموں کے افراد داعش کے نظریات سے متاثرہو کر چھوٹے چھوٹے نیٹ ورکس کی صورت میں ان میں شامل ہوتے ہیں اور سلیپرسیلز کے ذریعے شدت پسند کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

محقق والے ریکارڈو کے مطابق داعش افغانستان کی طرح پاکستان میں اپنا کوئی مضبوط نیٹ ورک نہیں رکھتی، یہی وجہ ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں جیسے 'سافٹ ٹارگٹس' کو نشانہ بناتی ہے۔ البتہ اس نے سیکیورٹی فورسز پر بڑے حملے کرکے اپنے مؤثر نیٹ ورک کی موجودگی ظاہر کی ہے۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG