رسائی کے لنکس

بھارت، پاکستان سے سندھ طاس معاہدے میں تبدیلی کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے؟


بھارت کی جانب سے دریائی پانیوں کی تقسیم کے طے شدہ فارمولے 'سندھ طاس' معاہدے پر نظرِثانی کے عندیے کے بعد اس معاہدے کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔

چھ دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگوں اور سفارتی تناؤ کے باوجود یہ معاہدہ برقرار رہا ہے۔ تاہم رواں برس جنوری میں بھارت کی طرف سے اس معاہدے پر نظرِ ثانی کے لیے پاکستان کو بھیجے گئےایک نوٹس پر پاکستانی پالیسی ساز اور ماہرین کی تشویش بڑھ گئی ہے۔

پاکستانی حلقوں میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ بھارت کی جانب سے اس معاہدے پر نظر ثانی کے مطالبے کا مقصد نہ صرف پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہے بلکہ پاکستان کی طر ف بہنے والے دریاؤں پر بھارت کے ڈیم بنانے کے منصوبوں پر اعتراض کو خاموشی میں بھی بدلنے کی کوشش ہے۔

یاد رہے کہ ستمبر 1960 میں پاکستان اور بھارت نے عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت تین مغربی دریاؤں سندھ ، جہلم اور چنا ب کا کنٹرول پاکستان کے سپرد کیا گیا تھا جب کہ تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نےگزشتہ ہفتے پریس بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ پاکستان نے سندھ طاس معاہدے پر بھارتی خط کا جواب دے دیا ہے جس کی تصدیق بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے بھی کی ہے۔

ارندم باگچی کے مطابق پاکستان کے خط کا جائزہ لے رہے ہیں اوراس بارے میں متعلقہ اسٹیک ہولڈر زسے مشورہ کیا جائے گا۔

بھارت کی طرف سے پاکستان کو 'سندھ طاس' معاہدے پر نظرِ ثانی کے لیے بھیجے گئے نوٹس کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ تاہم اس معاہدے کے تحت کوئی بھی فریق یک طرفہ طورپر معاہدے سے الگ نہیں ہوسکتا۔ معاہدے کےآرٹیکل 12 کے تحت معاہدہ فریقین کی رضامندی سے اسی صورت میں ختم ہو سکتا ہے جب دونوں ممالک اس کی جگہ ایک نیا معاہدہ نہیں کر لیتے۔

بھارت کی طر ف سے اس معاہدے پر نظر ثانی کرنے اور اس میں ترمیم کرنے کا نوٹس پاکستان کو ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب اس معاہدے کے تحت پاکستان نے بھارتی کشمیر میں کشن گنگا اور رتلے پن بجلی کے منصوبوں پر اعتراض اُٹھایا تھا۔

پاکستان بھارت کے آبی منصوبوں کے معاملے کو غیر جانب دار ماہرین اور بعدازاں ہیگ میں قائم ثالثی عدالت میں لے گیا تھا جس پر بھارت نے اعتراض کیا تھا۔

عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کی درخواست پر غیر جانب دار ماہر کا تقرر کرنے اور ثالثی عدالت کے سربراہ کی تقرری کے اعلان کے کچھ ماہ بعد بھارت نے پاکستان کو معاہدے سے متعلق نوٹس بھیجا تھا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کے فقدان اور کشیدگی کے پیشِ نظر معاہدے میں کسی بھی تبدیلی کے لیے باہمی سطح پر بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔

'سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے پانی پر کبھی جنگ نہیں ہوئی'

بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ بھارتی حکومت سندھ طاس معاہدے کو دوبارہ ری اوپن کرنا چاہتی ہے۔تاہم بھارت کی جانب سے تاحال یہ اشارہ نہیں ملا کہ وہ اس معاہدے میں تنازعات کے حل کے لیے دیے گئے طریقۂ کار میں تبدیلی چاہتا ہے یا نیا معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔

ان کے بقول اس معاہدے میں تنازعات کو حل کرنے کا ایک جامع طریقۂ کار موجود ہے جسے برقرار رکھنا دونوں ملکوں اور خطے کے مفاد میں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احمد بلال صوفی نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے معاملے پر جنگ نہیں ہوئی۔ معاہدے میں کسی بھی فریق کی طر ف سے باہمی اتفاق رائے کے بغیر اگر کوئی چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے تو یہ خطے کی امن و سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ستمبر 2016 میں پانی کے معاملے پر ہونے والے ایک اجلاس کے دوران کہا تھا کہ "خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔"

یہ بات انہوں نے ایسے وقت میں کہی تھی جب پاکستان اور بھارت کےتعلقات انتہائی کشیدہ تھے او ر اسی اجلاس میں سندھ طاس معاہدے کا جائزہ لینے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ بعدازاں اس کمیٹی نے 2021 میں موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت کا ذکر کرتے ہوئے اس معاہدے پر نظر ثانی کی تجویز پیش کی تھی۔

پاکستان کی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمٰن کہتی ہیں اگر بھارت کو معاہدے پر تحفظات ہیں تو وہ کمیشن کی سطح پر یہ معاملہ اُٹھا سکتا ہے۔

انہوں نے گزشتہ ہفتے پارلیمان کے ایوانِ بالا (سینیٹ )میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے معاہدے میں ترمیم کی تجویز کو مبہم قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فریقین کی رضا مندی کے بغیر اس معاہدے پر نظرِ ثانی نہیں ہو سکتی۔

بھارت از خود سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کر سکتا: سرتاج عزیز
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:30 0:00

ماہر ماحولیات علی توقیر شیخ کہتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کو بھیجے گئے نوٹس میں جو معاملات اٹھائے ہیں وہ کبھی بھی انڈس واٹر کمیشن کی سطح پر نہیں اٹھائے گئے۔

ان کے بقول، " اگر پاکستان اور بھارت چاہیں تو اعتراضات پر مشترکہ طور پرایک الگ سے سے کوئی معاہدہ کر سکتے ہیں لیکن سندھ طاس معاہدے کو ری اوپن کرنا مسائل کا حل نہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاہدے کے بنیادی نکات میں تبدیلی پر رضا مند نہیں ہو گا۔ تاہم موسمیاتی تبدیلی، عالمی درجۂ حرارت اور اس کے ماحول پر پڑنے والے اثرات سے متعلق تجاویز معاہدے میں شامل کرنے پر پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

توقیر شیخ کہتے ہیں کہ جب 1960 میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا تو اس وقت ان کےبقول غیر معمولی موسمیاتی تبدیلی اور عالمی درجۂ حرارت جیسے مسائل اتنے کھل کر سامنے نہیں آئے تھے ۔

احمر بلال صوفی کے خیال میں دونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے سفارتی تناؤ کی وجہ سے سندھ طاس معاہدے میں کوئی ترمیم نہیں ہو سکتی ۔

اُن کے بقول بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا ہے۔لیکن سفارت کاری وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر دونوں ممالک کشمیر، سرکریک، سیاچن اور پانی کے تنازعات حل کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG