رسائی کے لنکس

امت شاہ کا دورۂ اروناچل پردیش، کیا بھارت اور چین میں کشیدگی پھر بڑھ رہی ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے اروناچل پردیش کے سرحدی علاقے کا دورہ کیا اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے قریب ایک گاؤں کبیتھو میں ’وائبرنٹ ویلج پروگرام‘ (وی وی پی) کا افتتاح کیا۔ پیر کو اس دورے کے موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ زمانہ چلا گیا جب بھارت کی زمین پر کوئی بھی قبضہ کر سکتا تھا۔ اب ایک انچ زمین بھی کوئی نہیں لے سکتا۔

چین نے امت شاہ کے دورے کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس علاقے میں ان کی سرگرمیاں چین کی علاقائی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔ وہ اس سے قبل بھی بھارتی رہنماؤں کے اروناچل دورے کی مخالفت کرتا رہا ہے۔

اس سے قبل چین نے اروناچل پردیش کے گیارہ مقامات کے نام تبدیل کیے جس کو بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔

ان دونوں اقدامات اور فریقین کے بیانات کے تناظر میں مبصرین کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان تلخی بڑھنے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔

بھارتی حکومت نے وائبرنٹ ویلج پروگرام کے نام سے ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد بھارت کے شمالی سرحدی علاقے میں واقع 2967 علاقوں کو جامع ترقیاتی منصوبوں میں شامل کرنا ہے۔

یہ مواضعات یا علاقے اروناچل پردیش، سکم، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقے لداخ میں واقع ہیں۔ پہلے مرحلے میں 662 علاقوں کا انتخاب کیا گیا ہے جن میں 455 اروناچل پردیش میں ہیں۔امت شاہ کا یہ دورہ چین کی جانب سے رواں سال کے دو اپریل کو اروناچل پردیش کے گیارہ مقامات کے نام تبدیل کرنے کے اقدام کے بعد ہوا ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے چار اپریل کو اپنے ردِ عمل میں چین کے اس اقدام کو مسترد کر تے ہوئے کہا تھا کہ ناموں کی تبدیلی سے حقائق تبدیل نہیں ہوں گے۔ واضح رہے کہ چین نے اروناچل پردیش کا نام ’زنگنان‘ رکھا ہے۔

اس سے قبل دو بار 2017 اور 2021 میں بھی چین نے اروناچل پردیش کے بعض مقامات کے نام تبدیل کیے تھے۔ اس وقت بھی نئی دہلی نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی اور ناموں کی تبدیلی کو مسترد کر دیا تھا۔ امریکہ نے بھی چین کے اس عمل کو مسترد کر دیا تھا۔

خیال رہے کہ چین اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ کرتا ہے جب کہ بھارت اس کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔

امت شاہ کے دورے پر تنقید

امت شاہ کے دورے کے فوراً بعد چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن کا ایک پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ بھارتی عہدے دار کا دورہ سرحد پر امن و استحکام کے قیام کے منافی ہے۔

دوسری جانب بھارت چین کے ان اعتراضات کو مسترد کرتا رہا ہے۔

چین بھارت سرحدی تنازع

بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع بہت پرانا ہے۔ دونوں میں 1962 میں جنگ بھی ہو چکی ہے۔

جون 2020 میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان خونی تصادم بھی ہوا تھا جس میں بھارت کے 20 اور چین کے چار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں میں سرحدی کشیدگی بہت بڑھ گئی تھی۔

فریقین کے درمیان کشیدگی کو دور کرنے کے لیے کمانڈرز کی سطح پر مذاکرات کے 17 ادوار ہو چکے ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک کی جانب سے پچاس پچاس ہزار فوجی لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر تعینات ہیں۔

وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر صورتِ حال غیر یقینی اور خطرناک ہے۔

بھارتی فوج کے اعلیٰ حکام کی جانب سے بھی ایل اے سی کی صورتِ حال کو غیر یقینی بتایا جاتا رہا ہے اور یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ہم کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔

’چین اروناچل پردیش کو زنگنان بھی کہتا ہے اور ساؤتھ تبت بھی‘

مبصرین کا خیال ہے کہ چین کی جانب سے مقامات کے ناموں کی تبدیلی کے بعد امت شاہ کا دورہ دراصل نئی دہلی کی طاقت کا مظاہرہ اور اروناچل پردیش کو اپنا علاقہ قرار دینے پر اصرار کا حصہ ہے۔

اس سے قبل اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو نے اروناچل پردیش کے ایک ہائیڈل پروجیکٹ کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی اور کہا تھا کہ یہ مستقبل کے اروناچل کی ترقی کی تصویر ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں اس منصوبے کی تعریف کی تھی اور امید کا اظہار کیا تھا کہ سرحدی علاقوں میں ترقی ہوگی۔

بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کے مطابق چین اروناچل پردیش میں دوہری حکمت عملی پر کام کر رہا ہے۔ وہ اروناچل پردیش کو زنگنان بھی کہتا ہے اور ساؤتھ تبت بھی کہتا ہے۔ وہ اس معاملے میں کنفیوژن کی صورت بنانا چاہتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسد مرزا کا کہنا تھا کہ دراصل بھارتی حکومت کے پاس اروناچل پردیش کا ایسا کوئی پرانا نقشہ نہیں ہے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو رست طریقے سے نشان زد کیا گیا ہو۔ چین اس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔

ان کے بقول چین جانتا ہے کہ بھارت سرحدی علاقوں پر اپنا قبضہ ثابت نہیں کر سکتا۔ اسی لیے وہ بار بار وہاں کے مقامات کے نام تبدیل کرتا ہے۔ اس کی پالیسی یہ ہے کہ پہلے خوب آگے تک بڑھ جاؤ اور جب اس پر اعتراض ہو تو تھوڑا سا پیچھے ہٹو۔ اس طرح وہ ایک بڑے حصے پر اپنا قبضہ قائم کر لیتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم مودی کے وائبینٹ ویلج پروگرام کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ اس طرح بھارت اس علاقے پر اپنا تسلط قائم رکھے او ریہ دعویٰ کر سکے کہ وہ اس کا علاقہ ہے چین کا نہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اروناچل پردیش پر چین کے دعوے کا مقصد خطے پر اپنی برتری ثابت کرنا ہے۔

رواں برس تین جنوری کو بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی اروناچل پردیش کا دورہ کیا تھا اور بنیادی ڈھانچے کے 28 منصوبوں کا افتتاح کیا تھا۔

ان کا دورہ نو دسمبر کو توانگ سیکٹر کے یانگتسے کے مقام پر ایل اے سی کے نزدیک دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان تصادم کے بعد ہوا تھا جس میں رپورٹس کے مطابق دونوں جانب کے فوجی زخمی ہوئے تھے۔

اس کے بعد 13 دسمبر کو راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ چینی افواج نے توانگ میں دراندازی کرکے ایل اے سی کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی جسے بھارتی فوج نے ناکام بنا دیا ہے۔

ان واقعات کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں آنے والی تلخی کے خدشے کے تناظر میں اسد مرزا کہتے ہیں کہ دونوں کے درمیان یہ سب چلتا رہے گا اور دونوں تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کرتے رہیں گے۔

ان کے مطابق بھارت اور چین تجارتی تعلقات کو خراب کرنا نہیں چاہیں گے۔ علاقائی سیاست میں اس قسم کی باتیں چلتی رہیں گی۔ سوشل میڈیا میں انہیں بڑے واقعات کے طور پر دکھایا جاتا رہے گا۔ اس طرح دونوں ملکوں کی سیاسی قیادتوں کا مقصد اپنے عوام کو یہ یقین دلانا ہے کہ ہم کمزور نہیں ہیں۔

بھارتی اخبار ‘ہندوستان ٹائمز’ کا اپنے ایک اداریے میں کہنا ہے کہ چین کی حکمتِ عملی سرحد کو غیر مستحکم رکھنے کی ہے۔ لیکن وہ باہمی تجارت کو متاثر کرنے کے حق میں نہیں ہے۔

یاد رہے کہ 2015 سے 2020 کے درمیان دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں 75.30 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن تجارتی توازن چین کے حق میں ہے۔

رواں سال کے جنوری میں چین کے محکمۂ کسٹم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت بھارت کی چین سے درآمدات کا حجم 118.5 ارب ڈالر ہے جب کہ چین کو بھارت کی برآمدات صرف 17.48 ارب ڈالر تک ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG