رسائی کے لنکس

حکومتِ پاکستان بجلی کے بلوں میں عوام کو ریلیف کیوں نہیں دے پا رہی؟


پاکستان کی نگراں وزیرِ خزانہ کی جانب سے بجلی کے بلوں میں عوام کو ریلیف نہ دیے جانے کے بیان پر پہلے سے ہی پریشان عوام اور تاجروں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا ہے کہ مالیاتی گنجائش نہ ہونے اور آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے حکومت بجلی کے بلوں یا ایندھن کی قیمتوں میں سبسڈی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

وزیرِ خزانہ کا یہ بیان بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے اپنا پالیسی بیان پیش کرتے ہوئے سامنے آیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ نگراں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ سابقہ حکومت کے طے شدہ اسٹینڈ بائی معاہدے کی شرائط کو ہر صورت پورا کرے۔

نگراں وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ ہی ہمیں بیرونی امداد ملنی ہے، آئی ایم ایف سے زیادہ ملکی صورتِ حال پر تشویش ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ بجلی کی مکمل پیداواری لاگت وصول کرنا ہو گی کیوں کہ ہمارے پاس سبسڈی دینے کی گنجائش نہیں ہے۔

ادھر یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ وزارتِ خزانہ نے اس صورتِ حال میں ایک منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت رواں سال بجٹ میں ایمرجنسی مقاصد کے لیے رکھے گئے 250 ارب روپے بجلی کے بلوں پر سبسڈی دیے جانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔لیکن اس کا انحصار بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے منظوری پر ہی ہے کیوں کہ پاکستان اس وقت فنڈ کے ساتھ نو ماہ پر مشتمل اسٹینڈ بائی پروگرام میں ہے۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کو یہ امید بھی بہت کم نظر آتی ہے کہ حکومت اس مشکل معاشی صورتِ حال میں شہریوں کو بجلی کے بلوں پر کوئی سبسڈی فراہم کر سکتی ہے جو ملک کے مختلف شہروں میں جگہ جگہ احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں۔

'حکومت نے آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے پورے کرنے ہیں'

ماہر معاشیات اور تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت حکومت کو 9200 ارب روپے کے محصولات کے بڑے ہدف کو پورا کرنا ہے۔

اُن کے بقول اس کے لیے بجلی کے بلوں میں الیکٹرسٹی ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس، ایکسٹرا سیلز ٹیکس، ایڈوانس انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسز وصول کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ گردشی قرضوں کا حجم اس سال 2310 ارب روپے تک محدود رکھنا بھی آئی ایم ایف کی شرط ہے۔ ان تمام اہداف کو حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت اگلی قسط فراہم کرتے ہوئے جائزہ لے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت ایسے موقع پر بجلی کے بلوں میں سبسڈی دینا شروع کر دے تو فنڈ کے ساتھ طے شدہ اہداف کا حصول ممکن ہی نہیں لیکن ایسے میں حکومت کو دیگر متبادل انتظامات کی جانب جانا ہو گا۔

ریلیف کے لیے متبادل انتظام کیا ہو سکتا ہے؟

سمیع اللہ طارق کے بقول اس کے لیے گیس کی قیمتوں کو یکساں کرنے سے متعلق منظور شدہ بل کو نافذ کیا جائے۔ اس سے آر ایل این جی سے تیار ہونے والی بجلی کی پیداواری قیمت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

اُن کے بقول وہ صنعتیں جو پیداوار کے لیے گیس استعمال کر رہی ہیں، انہیں نیشنل گرڈ پر منتقل کیا جائے۔ اس میں ایک سے دو ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے جہاں گیس بجلی بنانے کے لیے استعمال ہو گی وہیں بجلی کی کھپت میں اضافے سے بجلی گھروں کے کرائے یعنی کیپیسٹی پیمنٹ کسی حد تک کم ہو سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین کی مدد سے لگائے گئے آئی پی پیز( بجلی بنانے والے نجی کارخانے) سے معاہدوں میں تبدیلی کے لیے مذاکرات کر کے ان کی ڈیبٹ امورٹائزیشن (قرضہ واپس کرنے کی مدت) 10 سال سے بڑھا کر 30 سال تک کر دی جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس کے بعد بجلی کی 10 سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کے لیے کوششیں تیز کرنی ہوں گی۔

وائس آف امریکہ نے نگراں وزیر خزانہ کے بیان پر تبصرہ کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی پاکستان میں رہائشی نمائندہ ایستھر پیریز روئز سے بھی رابطہ کیا۔

ان سے استفسار کیا گیا ہے کہ آخر آئی ایم ایف پروگرام میں ایسی رکاوٹیں کیوں شامل کی گئی ہیں جس سے حکومت عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ تاہم ابھی تک اس پر ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

'یہ عوام کے صبر کا امتحان ہے'

معروف تجزیہ نگار فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ بجلی سے متعلق حالیہ مظاہرے معاشی دباؤ اور گورننس کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اُن کے بقول بڑھتی ہوئی مہنگائی اور یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ عوام کے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔

فرخ سلیم کا مزید کہنا تھا کہ بجلی کے بحران سے نمٹنے اور سماجی بدامنی کو روکنے کے لیے مجموعی اقدامات کی ضرورت ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور گورننس میں بہتری تک یہ مسائل حل نہیں ہو پائیں گے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG